کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 167
تھے۔ کسی قسم کی بدعت اور خرافات اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے اس لیے وہ کس کے مقابلے میں سلفی دعوت نام رکھتے۔ اس وقت یا تو اسلام تھا یا اس کے مقابلے میں کفر لیکن جب فتنوں کا دور شروع ہوا، نئے نئے افکار و نظریات اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔[1] اغیار کی ثقافت و تہذیب پوری آرائش و زیبائش کے ساتھ مسلمانوں کی نگاہوں کو خیرہ کرنے لگیں۔ نئی نئی بدعات و خرافات جنم لینا شروع ہوگئیں اس وقت مسلمانوں نے ان کو محسوس کیا اور خالص اسلامی دعوت کو ہر قسم کی نئی آمیزش سے محفوظ رکھنے کی بھرپور کوششیں کیں اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ دعوت اس وقت سب سے واضح انداز میں ظاہر ہوئی جب امام احمدبن حنبل کے زمانہ میں خلق قرآن کا فتنہ ظاہر ہوا۔ اس وقت تمام مسلمانوں کو اس باطل نظریہ کی طرف مائل کیا جارہا تھا۔ اچھے اچھے لوگ بادشاہ وقت کی اذیت ناک سزا سے بچنے کے لیے بظاہر خلق قرآن کے قائل ہوگئے تھے۔ اسی نازک ترین موقع پر امام احمد بن حنبل پہاڑ کی چٹان کے مانند اپنے نظریہ پر قائم تھے۔ ہر قسم کی سزاؤں کو گلے لگالیا مگر اسلام کی حقانیت و شفافیت پر آنچ آنے نہیں دی اس طرح قیامت تک امت مسلمہ بہت بڑے فتنے سے محفوظ ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ انھیں جنت الفردوس نصیب کرے۔ آمین۔ اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت دو قسم کی دعوتیں وجود میں آچکی تھیں۔ ایک اہل رائے کی دعوت، یہ وہ لوگ تھے جو ہمیشہ عقل کو نقل پر مقدم کرتے تھے۔ کتاب و سنت کے نصوص اور سلف صالحین کی واضح اور روشن ہدایت کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور دوسری جانب وہ لوگ تھے جو کتاب و سنت ہی کو بنیاد بنائے ہوئے تھے۔ سلف صالحین کا واضح راستہ ہی ان کی اساس تھی۔ غرضیکہ جوں جوں لوگ اسلام کے چشمہ صافی سے دور ہوتے جاتے۔ غیروں کے افکار و نظریات، عقائد و خیالات سے کافی حد تک متاثر ہوتے جاتے ، ان کے درمیان اسی قدر سلفی دعوت ابھرتی جاتی تھی۔
[1] ۔ غالباً سب سے پہلے فتنہ عصر صحابہ میں خوارج کے ظہور کی شکل میں پیدا ہوا، اس کے بعد فتنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جیسے ارجاء، قدر، تجھم وغیرہ وغیرہ۔