کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 166
عقائد و عبادات، اخلاق و عادات اور آداب پر مشتمل ہیں تو ان کو اسلام ہی سے اخذ کیا جائے گا رہا دنیوی امور تو دوسری قوموں سے مذکورہ بالا شرط کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
سلفی دعوت کی تاریخ:
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ سلفی دعوت موجودہ دور کی پیداوار ہے۔ اس کی کوئی تاریخ نہیں ہے زیادہ سے زیادہ اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ دعوت یا تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی طرف منسوب ہے یا محمد بن عبد الوہاب کی طرف یہی اس کی تاریخ ہے۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایک انصاف پسند شخص جب تعصب کی عینک اتار کر حقیقت کے آئینے میں اس کی تاریخ دیکھنے کی کوشش کرے گا تو اس کے سامنے یہ حقیقت آشکارا ہوجائے گی کہ یہی دعوت اسلام کی صحیح اور اصلی دعوت ہے۔ یہی کتاب و سنت کی دعوت ہے اور یہی وہ دعوت ہے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر مبعوث ہوے تھے۔ یہی دعوت آخری دعوت، آخری شریعت اور تمام ادیان کی خاتم بھی ہے۔ ابتدائی دور میں اس کا نام سلفی دعوت اس لیے نہیں رکھا گیا تھا کہ اس وقت اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیونکہ اس وقت کے مسلمان صحیح اسلام پر قائم تے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حکم یا کوئی عمل سنتے، یا آپ کو کوئی عمل کرتے ہوئے دیکھتے۔ بعینہٖ اسی طرح کرنا شروع کردیتے، اپنی جانب سے کسی قسم کی آمیزش گناہ کبیرہ تصور کرتے تھے۔ اسی طرح نہ ہی کسی صحابی نے اپنا کوئی نظریہ یا اپنی کوئی فکر رواج دینے کی کوشش کی۔ سب کے سب صرف اور صرف قرآن و سنت کے واضح ارشادات و توجیہات پر عمل پیرا تھے۔ وہ سچے اور مخلص مسلمان تھے۔ اس لیے وہاں پر سلفی دعوت یا سلفی اسلام کہنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ بالکل اسی طرح ہی جس طرح ان کی اصلی زبان عربی تھی۔ بغیر کسی لحن اور بغیر کسی غلطی کے فصیح عربی بولتے تھے ان کے اچھے اچھے قصیدے، نثری مجموعے، ضرب الامثال سب فصیح عربی زبان میں موجود ہیں۔ لہٰذا انہیں عربی قواعد، نحو و صرف کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح پہلے کے مسلمان بھی صحیح اسلامی دعوت پر قائم تھے۔ ان کے یہاں کسی قسم کے شذوذ انحرافات نہیں