کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 165
خاص نہیں ہے، تہذیب وثقافت اور علمی ترقی اور تقدم میں سب مشترک ہیں اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ کبھی کوئی قوم آگے بڑھ جاتی ہے تو کبھی کوئی دوسری قوم ترقی کرجاتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ہر ایک اپنی طبع آزمائی کے مطابق آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جیسے علم زراعت، کیمیاء، فیزیاء اور علم الافلاک وغیرہ یہ علوم ایسے ہیں جن سے استفادہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں قرار دیا ہے۔ البتہ اتنا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ ان علوم میں کوئی ایسی شئی نہ ہو جو ہماری شریعت سے ٹکراتی ہو۔ کوئی ایسا نظریہ اور خیال نہ ہو جو اسلام کے مخالف ہو۔ اگر ان علوم میں اسلام مخالف کوئی شئی پائی گئی تو یقینا یہ غیر قابل قبول ہوگی۔ کیونکہ اسلام حق ہے اس میں کسی قسم کا ریب و شک نہیں ہے نیز یہ علوم انسانی ایجادات و تخلیقات ہیں۔ ان میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال رہتا ہے لہٰذا اگر ان علوم میں کوئی ایسی شئی مل گئی جو شریعت اسلامی سے متصادم ہے تو یقینا اسے ردّ کرنا ضروری ہے۔ اس شرط کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان علوم سے استفادہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بیان کرنا مناسب ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ اہل مدینہ تابیر نخل کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ شروع سے ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرتم لوگ ایسا نہ کرو تو بہتر ہے تو انہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا۔ دوسرے سال دیکھا پھل کم آیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: جب میں تم لوگوں کو دینی امور کے بارے میں کوئی بات بتاؤں تو اس کو لے لو اور اگر دنیاوی امور کے متعلق کچھ کہوں تو تم لوگ اس سلسلے میں زیادہ جانتے اور سمجھتے ہو حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ((إذا حدثتکم فی امر من امور دینکم فخذوا بہ، وإذا حدثتکم فی امر من امور دنیاکم فانتم اعلم بأمور دنیاکم۔)) [1]گویا کہ یہاں دو امر ہیں: ایک دینی امور: جو
[1] ۔ صحیح مسلم:4/1826، ابن ماجہ:(2471) حماد بن سلمہ، عن ہشام بن عروہ، عن ابیہ، عن اُمّ المومنین عائشہ، وعن ثابت البنانی، عن انس بہ اور یہی حدیث مسند احمد (3/152) میں دوسری سند سے مروی ہے۔