کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 163
کرلیا یہ نہیں سوچا کہ یہ نئی چیز اسلام کے مزاج کے موافق ہے یا نہیں، یہ اس وجہ سے ہوا کہ ان کے اذھان و قلوب میں اسلام اس قدر ٹھوس انداز میں متمکن نہیں ہوسکا تھا جتنا ٹھوس اور مضبوط قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں متمکن تھا۔ پھر یہی نئی چیزیں ان کے اندر اسلام کے نام سے رواج پاگئیں۔ یہی نہیں بلکہ بعض امراء اور حکام جو اسلام کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکے تھے اور نہ ہی اس کا اتنا اہتمام کیا جتنا کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے یہ کام کیا کہ غیروں کی ادبی کتابوں کا ترجمہ کرانا شروع کردیا۔ لہٰذا ان کتابوں کا اثر بھی مسلمانوں پر پڑا جن سے اسلام کافی حد تک متاثر ہوا۔[1] حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی اس کی خطرناکی سے متنبہ کردیا تھا۔ جیسا کہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ اس پر واضح دلیل ہے جس وقت انہوں نے تورات کے کچھ حصے کو لکھوایا تھا پھر اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور پڑھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ تمہیں کہاں سے دستیاب ہوا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میرا ایک یہودی دوست ہے میں نے اس سے حاصل کیا ہے۔ اس پر آپ سخت غصہ ہوئے اور فرمایا اے ابن خطاب کیا تم ہلاک ہونا چاہتے ہو؟ اللہ کی قسم! اگر موسیٰ بن عمران بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری ہی اتباع کرنی پڑتی۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
((أمتھوکون أنتم یابن الخطاب، والذی نفسی بیدہ لو أن موسیٰ بن عمران کان حیًا لما وسعہ إلا أن یتبعنی۔))[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینی طور پر جانتے تھے کہ ہدایت وہی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی جانب سے لے کر آئے ہیں۔ لہٰذا اب کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو اپنا امام، اپنا قائد و رہبر بنائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی اتباع کو قبول کرے۔ اسی طرح یہ بھی نہیں جائز ہے کہ مسلمان
[1] ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم الکلام اور اعلم الجدل مسلمانوں میں عام ہوگیا۔ بدعتیں پھیلنی شروع ہوگئیں ان میں سب سے اہم مسئلہ مسئلہ خلق قرآن کا تھا جس علماء امت زبردست آزمائش میں پڑگئے تھے۔ فإلی اللّٰه المستکی۔
[2] ۔ مسند احمد:3/387۔