کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 162
’’ سب سے بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے قریب ہیں، پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے قریب ہیں پھر اس کے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی نہیں طلب کی جائے گی لوگ امانت رکھیں گے حالانکہ وہ امین نہیں ہوں گے ان کے درمیان جھوٹ عام ہوجائے گا۔‘‘ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے بعد شروع کی تین صدیوں کے لوگ سب سے اعلیٰ و افضل اور سب سے ارفع و اکمل انسان قرار پائے۔ لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان حضرات کا عقیدہ و عمل، منہج و مسلک، سنت پر دوام، اللہ کی رضا کے لیے جانی و مالی قربانی، کارخیر میں سبقت کا جذبہ، سیئات سے بے حد اجتناب ان تمام امور میں وہ سب سے اعلیٰ و احسن اور سب سے افضل تھے، کیونکہ ان کے انہی حسن عمل اور حسن کردار کی بنیاد پر انھیں افضلیت کا مقام ملا تھا۔[1] متاخرین میں انحراف کے آثار: ان نفوس قدسیہ کے بعد جن کو امت صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے نام سے جانتی ہے ایسے لوگ پیدا ہوئے جو بہت سے مسائل میں طریقۂ سلف سے ہٹ گئے تھے، تیسری صدی کے بعد ایسے ایسے امور ظاہر ہونا شروع ہوگئے جن کا تصور بھی پہلی تین صدیوں میں نہیں تھا اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ اس وقت کے مسلمان دوسری قوموں کے ساتھ خلط ملط ہوگئے۔ غیروں کی ثقافت و تہذیب، ان کے افکار و خیالات، نظریات و عقائد، ان کے کلچرز آہستہ آہستہ مسلمانوں میں سرایت ہونا شروع ہوگئے جیسے ہی کسی نئی چیز کو دیکھا اس کو قبول
[1] ۔ اس کی تائید ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی معلوم ہوتی ہے جس کو مسند احمد نے: 2/297 میں، ابونعیم نے حلیۃ الأولیاء:2/78 میں حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ سب سے بہترین لوگ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ((أنا ومن معی، ثم الذین علی الأثر، ثم الذین علی الأثر)) ’’میں ہوں اور وہ لوگ ہیں جو میرے ساتھ ہیں پھر جو ان کے بعد ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں۔‘‘