کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 160
ہے کہ اہل علم سے سوال کرو، اب آیت میں ’’اہل الذکر‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں؟ کیا وہ لوگ مراد ہیں جو خود ساختہ ذکر کے وقت رقص کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں، ذکر سے مراد اہل قرآن ہیں یعنی جو لوگ قرآن کا علم رکھتے ہیں اور کوئی شخص اس وقت تک قرآن کا علم نہیں رکھ سکتا جب تک اسے سنت کا علم نہ ہو۔ اس لیے کہ سنت قرآن کی شرح ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ عالم وہ شخص ہے جس کے پاس قرآن و سنت دونوں کا علم ہو۔ اس کے علاوہ کا اگر علم ہے تو وہ عالم غیب نہیں ہے۔ آیت کریمہ نے خود لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے پہلا عالم، دوسرا جاہل، جاہل کا فرض ہے کہ عالم سے سوال کرے اور عالم کا فرض ہے کہ اس کو کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سلفی دعوت کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی جاہل اپنے آپ کو عالم بتائے اور عالم کے مانند کام بھی کرے بخلاف دوسری دعوتوں کے، کہ ان کے یہاں جاہل بھی وہی کام کرتا ہے جو عالم کرتا ہے (جیسے تبلیغی جماعت) بہرحال جاہل جاہل ہوتا ہے اور عالم عالم، جاہل عالم کے مانند کبھی نہیں ہوسکتا۔ آخر میں چلتے چلتے میں اپنے بھائیوں کو اس بات کی نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کبھی بھی اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچانے کی کوشش نہ کریں کہ وہ بذات خود بغیر عالم کے سہارے کتاب و سنت کو سمجھ لیں گے۔ وہ کتاب و سنت کے فہم میں علماء کا سہارا ضرور لیں۔ اس عالم سے جو کتاب و سنت کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہو۔ دوسری بات دعوت تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے چاہے وہ عالم ہو یا جاہل سب لوگوں کو اس بات کا حکم ہے کہ وہ کتاب و سنت کی اتباع کریں۔ وہ جاہل جو سلفی مسلک و مشرب کا ہے وہ کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلے کا حل چاہے گا لیکن غیر سلفی مقلد تو وہ مسئلے کا حل اپنے مذہب کی روشنی میں پوچھے گا مثلاً اگر حنفی ہے تو کہے گا کہ مجھے حنفی مذہب کے مطابق فتوے دیجیے۔ یہ بہت واضح فرق ہے سلفی اور غیر سلفی میں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو تمسک بالکتاب والسنۃ کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین