کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 16
کو یاد کرتا ہے۔‘‘ پس ہم مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے معالجہ کے لیے اور ہر دور کے لیے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہترین نمونہ ہیں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسی چیز سے ابتداء کریں جس سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء کی تھی یعنی سب سے پہلے مسلمانوں کے فاسد عقائد کی اصلاح کرنا، پھر اس کے بعد ان کی عبادتوں کی اور پھر ان کے سلوک کی۔ میری اس ترتیب سے کہ سب سے پہلے اہم ترین چیز سے شروع کرنا چاہیے پھر اس کے بعد جو اہم ہو پھر جو اس کے بعد۔اس سے مراد یہ نہیں کہ میں ان میں تفریق کرنا چاہتا ہوں بلکہ میں تو یہی چاہتا ہوں کہ مسلمان اس کا بہت زیادہ اہتمام کریں۔ یہاں مسلمانوں سے میری مراد طبعاً داعیان ہیں۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہوگا کہ میں کہوں مسلمانوں کے علماء کیونکہ صد افسوس آج داعیان کے اندر ہر مسلمان داخل ہے خواہ وہ علمی طور پر بالکل کنگال ہی کیوں نہ ہو۔ پس وہ اپنے آپ کو داعیان اسلام شمار کرنے لگتے ہیں۔ اگر ہم اس معروف قاعدے کو یاد رکھیں جو صرف علمائے کرام کے نزدیک ہی نہیں بلکہ ہر ذی عقل شخص کے نزدیک بھی جانا پہچانا ہے ((فاقد الشیء لا یعطیہ)) ’’جو کسی چیز کا خود حامل نہیں وہ دوسروں کو نہیں دے سکتا‘‘ ہم جانتے ہیں آج ایک بہت بڑا گروہ ہے جو لاکھوں مسلمانوں پر مشتمل ہے جس کی طرف نظریں اٹھتی ہیں جب دعاۃ (داعیوں) کے لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ میری اس سے مراد تبلیغی جماعت ہے، اس کے باوجود اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بموجب: {وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo} (الاعراف: 187) ’’اور اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ ان کے طریقہ دعوت کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ جن امور کا میں نے ابھی ذکر کیا یعنی عقیدہ، عبادت اور سلوک ان میں سے پہلی بنیاد یا اہم ترین بات کے اہتمام سے وہ مکمل طور پر اعراض برتتے ہیں۔ اس اصلاح سے جس سے نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے آغاز فرمایا جسے اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا: