کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 158
ہے وہ اسلام قلیل اور کثیر کے درمیان تفریق کرے گا کہ قلیل کو تو دعوت دی جائے اور کثیر کو چھوڑ دیا جائے۔ یقینا ایک ایسا مسلمان جس کے پاس کتاب و سنت کا فہم ہوگا وہ ہرگز یہ بات نہیں کہے گا اور نہ ہی اسے تسلیم کرے گا۔
اب آئیے ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو سلفی کیوں کہتے ہیں؟ اور ہماری دعوت سلفی دعوت کیوں ہے؟ ہم نے کئی مرتبہ اس مسئلہ کو واضح انداز میں بتادیا ہے کہ ہر مسلمان کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ وہ کتاب و سنت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ لیکن اس کی یہ دعوت کسی موضوع کے ساتھ مقید نہیں ہوتی ہے۔ کسی واضح منہج کی دعوت نہیں دیتی ہے۔ اسی لیے ہم نے سوچا کہ دعوت کو مقید کرنا ضروری ہے وہ اس طرح کہ کتاب و سنت کی دعوت اس طرح ہونی چاہیے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا۔ کیونکہ پہلے مسلمان وہی لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے عمل سے ایسا خوش ہوا کہ قرآن مجید میں ’’رضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ‘‘ جیسی آیت نازل فرمادی اور انھیں جنت کی بشارت بھی دے دی۔ اب ظاہر بات ہے کہ یہ رضامندی اور جنت کی خوشخبری ان کو ان کے اچھے عمل کی بنیاد پر حاصل ہوئی تھی اور اچھا عمل قرآن و سنت ہی سے سیکھا تھا۔ لہٰذا ہمارا عمل بھی انہیں کے مانند ہونا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سب سے بھی خوش ہوجائے۔ نیز آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ تمام صحابہ کرام عالم نہیں تھے۔ بلکہ کچھ عالم تھے، مگر ان کے اندر یہ تقسیم نہیں تھی۔ سب کے لیے ان کی دعوت یکساں تھی ایسا نہیں تھا جیسے کاتب صاحب کا خیال ہے کہ عوام کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور تعلیم یافتہ طبقے کو دعوت دی جائے، یہ سب کو معلوم ہے کہ صحابہ کرام کے زمانہ میں گروپ بندی ہرگز نہیں تھی۔ وہاں کوئی بکری، عمری، یا عثمانی، یا علوی نہیں تھا۔ بلکہ سب کے سب کتاب و سنت کے پیروکار تھے اور سب کی خواہش یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے۔ اس لیے آج بھی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بھی اسی راہ پر چلیں جس پر صحابہ کرام گامزن تھے اور کتاب و سنت کو اسی طرح سمجھنے کی کوشش کریں جس طرح صحابہ کرام نے سمجھا تھا۔ اگر مسلمانوں نے ایسا کرلیا تو یقینا وہ اپنی زندگی کو، زندگی کے شب و روز کو، نئے سرے