کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 157
ہوں۔ اس کے برعکس اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے بلکہ تعلیم یافتہ طبقے کو دعوت دی جاتا ہے۔ انھیں مثقف و مہذب بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور بڑا طبقہ جو عوام کا ہے انھیں یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عوام کو ان کی ضلالت و گمراہی میں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے، یہی نہیں بلکہ ان کو ان کے اختلافات ہی پر قائم رہنے دیا جائے گا جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوگا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے پیچھے نماز نہیں پڑھے گا۔ کیوں۔؟ اس لیے کہ ایک حنفی ہے اور دوسرا شافعی، ایک مقلد ہے دوسرا غیر مقلد اور یہ منظر عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے مقلدین اس شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے جو سنت کے مطابق نماز پڑھتا ہے یا جو صرف کتاب و سنت کی طرف دعوت دیتا ہے، جیسا ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا سلفی مسلمان نہیں ہیں؟ آپ ان کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ تویہ جواب دیتے ہیں کہ یہ لوگ بدعتی ہیں۔ (نعوذ باللہ) پھر ان سے جب کہا جاتا ہے کہ آپ کے مذہب میں بدعتی کے پیچھے نماز جائز ہے کیونکہ آپ کے یہاں یہ حدیث بہت مشہور ہے: ((صلوا وراء کل برو فاجر))[1] ’’یعنی ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھا کرو۔‘‘ آپ لوگ اس کو روایت بھی کرتے ہیں اور بطور استدلال اس کو پیش بھی کرتے ہیں پھر اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ یہ کاتب ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم عوام کو ان کے طریقے پر چھوڑ دیں، ان سے تعرض ہرگز نہ کریں۔ اب آپ ٹھنڈے دل سے بتائیں کہ کیا یہی اسلام ہے؟ جو اسلام صدا لگاتا ہے: {وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ} (الروم: 31،32) ’’تم مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ، ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور وہ خود بھی گروہ گروہ ہوگئے ہرگز وہ اس چیز کے ساتھ جو ان کے پاس ہے مگن ہیں۔‘‘ آپ ہمیں بتائیں کہ کیا وہ اسلام جو تمام مسلمانوں کو اتفاق و اتحاد اور یکجہتی کی تعلیم دیتا
[1] ۔ اس حدیث پر کلام ’’إرواء الغلیل‘‘(527) میں دیکھ سکتے ہیں۔