کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 153
کلام کو اب نہیں لیتے ہیں میں نے کہا: کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ امام شافعی کے بعد بہت سے ائمہ آگئے ہیں جنہوں نے ان کے اقوال کو پڑھا۔ اس میں راجح و مرجوح اقوال کو دیکھا تو ہم ان کے راجح قول کو لیتے ہیں اور وہ راجح قول جس کو ان ائمہ نے راجح قرار دیا ہو۔[1] پھر ہم نے اس سے کہا کہ گویا کہ امام شافعی کے کلام میں راجح و مرجوح ہے اور خطا و صواب بھی ہے۔ متاخرین نے بعد میں آکر چھان بین کرکے اس کے صواب کو اس کی خطا سے الگ کردیا۔ یہ سن کر وہ اچانک پریشان ہوگیا اور موضوع کو بدل دیا اور کہنے لگا ہم شافعی نہیں ہیں۔ بلکہ ہم باجوری ہیں۔ یہی حال موجودہ دور کے سارے مقلدین کا ہے۔ نہ کوئی حنفی ابوحنیفہ کی تقلید کرتا ہے، نہ ہی کوئی شوافع شافعی کی تقلید کرتا ہے۔ اب جبکہ کسی نہ کسی امام کا ہونا ضروری ہے تاکہ اس کی باتوں پر عمل کیا جائے تو ہمارے امام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو لیتے ہیں اور انھیں پر عمل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ائمہ کرام کے اقوال کی قدر نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہم ان ائمہ کرام کی شخصی طور پر اتباع نہیں کرتے ہیں بلکہ شخصی طور پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات ثابت ہوجائے تو اس کو ہر حال میں قبول کرنا ہے اس سے اعراض کرنا جائز نہیں۔ لیکن جب کوئی امام بات کہتا ہے تو ہم اس سے دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس قول کے ثبوت میں کتاب و سنت سے کوئی دلیل پیش کرے اور یاد رکھئے کہ ہم ان لوگوں کے طریقے پر نہیں ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ’’جس نے اپنے شیخ سے کہا کیوں؟ تو وہ کبھی
[1] ۔ شیخ ربیع مدخلی اپنی کتاب ’’اہل الحدیث ہم الطائفۃ المنصورۃ‘‘ کے ص:34‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ائمہ اربعہ کے پیروکار یا تو اشعری ہیں یا صوفی‘‘ اب یہ لوگ ائمہ اربعہ کی کتابوں کی طرف رجوع نہیں کرتے ہیں۔ شوافع نہ تو کتاب الأم کو پڑھتے یا پڑھاتے ہیں اور نہ ہی اس کی طباعت ہی کرتے ہیں بلکہ متاخرین شافعیہ کی کتب جیسے باجوری، المنہاج‘‘ وغیرہ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ اسی طرح مالکیہ نہ تو ’’المؤطا‘‘ کو پڑھتے ہیں نہ ہی ’’المددفۃ‘‘ کو بلکہ متاخرین مالکیہ کی کتابوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح احناف بھی ہدایۃ، فتاویٰ ہندیہ، در مختار وغیرہ کو استعمال کرتے ہیں اور ان میں جو خرافات اور غلطیاں ہیں وہ پوشیدہ نہیں ہیں۔‘‘