کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 152
نے دوسرے امام کو اپنا رہنما مانا۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ صرف ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے یا ان کے شاگردوں کی بات لیتے اور ان کی تقلید کرتے، تب بھی بات دوسری ہوتی۔ مگر یہ لوگ تو بے شمار لوگوں کی تقلید کرتے ہیں، مثلاً آپ کسی ایسے شخص کے پاس جائیں جو کسی ایک مذہب کا پیروکار ہے پھر جس امام کا مقلد ہے مثلاً حنفی یا شافعی پھر اسی امام کی کوئی کتاب لے کر اس میں سے کوئی مسئلہ اس کے سامنے پیش کردیں تو وہ یہی کہے گا کہ ہم اس نص کی اتباع نہیں کرتے ہیں اور نہ ہمارے اندر اتنی صلاحیت کہ اس امام کی کتاب سے کوئی مسئلہ اخذ کرسکیں۔ اب یہ شخص اس شخص سے مسئلہ معلوم کرتا ہے جو امام یا امام کے کسی شاگرد کی بات پر عمل کرتا ہے گویا کہ اصل امام کو چھوڑ کر متاخرین علماء کی باتوں پر عمل کرتا ہے، متقدمین ائمہ کرام کی باتوں کو نہیں لیتا ہے۔[1] سلفی دعوت کے عام ہونے سے پہلے ان لوگوں کے ساتھ ہمارا بہت بحث و مباحثہ ہوچکا ہے۔ اس کے بہت سے شواہد بھی ہمارے پاس ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے میرے بارے میں کہا کہ ایک مسجد جس کا امام و مؤذن دونوں باتنخواہ ہوں اس مسجد میں تعدد جماعت مشروع نہیں ہے۔ یہ بات اس نے میری طرف منسوب کردی، میں بذات خود اس امام مسجد کے پاس گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم نے ایسی ایسی بات کہی ہے؟ میں نے کہا: ہاں، اس نے کہا: آپ نے یہ بات کس بنیاد پر کہی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ائمہ کے قول کی بنیاد پر اور امام شافعی کی کتاب ’’الأم‘‘ اس کے سامنے لاکر پیش کردیا وہ امام بھی شافعی مذہب کا پیروکار تھا۔ جب میں نے اس کے سامنے ’’الأم‘‘ کی عبادت پڑھی تو اس نے کہا: ہم امام کے
[1] ۔ آج مذاہب کی طرف انتساب کی یہی حقیقت ہے یعنی انتساب صوری ہے حقیقی نہیں۔ کیونکہ متاخرین علماء بہت سے مسائل میں متقدمین ائمہ کرام کے خلاف ہیں۔ بعد کے لوگ متاخرین کے ترجیحی مسائل کو لے لیتے ہیں جبکہ اس میں ائمہ مذاہب کی صریح مخالفت ہوتی ہے۔ اگر یہ مخالفت صرف احکام میں ہوتی تو گوارا تھا لیکن یہ متاخرین اصول اعتقاد میں ائمہ کے مخالف ہیں۔ مثلاً متاخرین احناف عقیدہ میں یا تو اشعری ہیں یا ماتریدی، اسی طرح مالکی و شافعی بھی ہیں۔ جبکہ ائمہ کرام کتاب و سنت کے نصوص کی اتباع کرتے تھے وہ کتاب و سنت کے خلاف کبھی غور و خوض نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تعریفات کلامیہ کے پیچھے پڑھتے تھے۔