کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 151
یہ ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے امام کے ساتھ خوش ہے۔ اس کے ہر قول کو اپنے دین کی بنیاد بنائے ہوئے ہے دوسرے ائمہ کرام کے اقوال کو لینا پسند نہیں کرتا، جبکہ تینوں اماموں کے اقوال ایک امام کے اقوال سے زیادہ ہوتے ہیں پھر بسا اوقات دوسرے ائمہ کے اقوال کتاب و سنت کے مواقع ہوتے ہیں جبکہ جس امام کی یہ تقلید کرتا ہے اس کی وہ بات صحیح نہیں ہوتی ہے پھر بھی یہ مقلد اس پر عمل کرتا ہے حالانکہ یہ غلط ہے جو قول کتاب و سنت کے موافق نہ ہو اسے نہیں لینا چاہیے۔ ان ائمہ کرام نے بڑی وضاحت کے ساتھ کھلے لفظوں میں اپنے اپنے پیروکاروں سے کہہ دیا ہے کہ ((خذوا من حیث اخذنا)) ’’تم لوگ مسئلہ وہاں سے لو جہاں سے ہم نے لیا ہے۔‘‘ ان ائمہ کرام کا یہ قول ہمارے قول کی تائید کرتا ہے کہ ان کی اتباع مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ صرف تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی اللہ سے محبت کی دلیل ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ} (آل عمران:31) ’’تم کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔‘‘ لہٰذا ہمارے اور ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ اس بات کو اختصار کے ساتھ اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہماری دعوت اس بات میں منحصر ہے کہ تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے۔[1] ہمارے نزدیک اتباع میں ان کا کوئی شریک ہے اور نہ کوئی ان کا مثل ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی اطاعت ہرگز نہیں کرسکتے، اور نہ ہی کریں گے رہے دوسرے لوگ تو ان کے امام بہت زیادہ ہیں کسی نے کسی امام کو اپنا امام بنایا، دوسرے
[1] ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: الاإتباع: ان یتبع الرجل ما جاء النبی صلي الله عليه وسلم ومن أصحابہ، ثم ہو من بعد التابعین مخیّر‘‘ اس قول کو امام ابوداؤد نے ’’المسائل‘‘ (1289) میں نقل کیا ہے۔ ’’یعنی اتباع یہ ہے کہ آدمی اس چیز کی اتباع کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور آپ کے صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ رہا تابعین کے اقوال تو اس میں اس کو اختیار ہے۔‘‘ لہٰذا سلف صالح کے فہم کے مطابق کتاب و سنت کی اتباع ہی اصل و مقصود ہے۔