کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 15
پیروی کی بجاآوری کرتا ہے، وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس صورتحال کی اصلاح یا اس کے علاج میں مشارکت کے سلسلے میں اس نے ایک عظیم امانت کا بیڑا اٹھایا ہے۔
آپ کی کیا نصیحت ہے ایسی تحریکوں یا جماعتوں کی اتباع کرنے والوں کے لیے؟
اس صورتحال کے علاج کا کون سا نفع بخش اور مفید طریقے ہیں؟
ایک مسلمان کس طرح بروز قیامت اللہ تعالیٰ کے لیے سامنے بری الذمہ ہوگا؟
جواب :…انبیاء ورسل علیہم السلام کے منہج کے مطابق سب سے پہلے توحید پر خصوصی عنایت اور اس کا اہتمام واجب ہے۔
مسلمانوں کی جو زبوں حالی ابھی سوال میں بیان ہوئی ہم اس پر کچھ اضافہ کریں گے وہ یہ کہ یہ المناک صورتحال اس سے بدتر نہیں جو صورتحال جاہلیت میں عرب کی ہوا کرتی تھی کہ جب ان میں ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے کیونکہ ہمارے پاس تورسالت موجود ہے اور اس کی تکمیل بھی اور ایسا گروہ بھی جو حق پر قائم ہے، جن کے ذریعہ ہدایت ملتی ہے اور یہ لوگوں کو عقیدہ، عبادت سلوک اور منہج کے اعتبار سے صحیح اسلام کی طرف بلاتے ہیں۔ بلا شبہ مسلمانوں کے بہت سے گروہوں کی جو حالت ہے وہ دور جاہلیت کے عرب کی مانند ہے۔
اس بنا پر ہم یہ کہتے ہیں: ان کا علاج بھی وہی علاج ہے اور ان کی دواء بھی وہی دوا ہے چنانچہ جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جاہلیت اول کا علاج کیا تھا، اسی طرح تمام موجودہ داعیان اسلام کو کلمہ توحید ’’لا الٰہ الا اللّٰه ‘‘ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں‘‘ کے سوا فہم کا علاج کرنا ہوگا اور انہیں چاہیے کہ اپنی اس المناک حالت کا اسی علاج و دواء سے معالجہ کریں۔ اس کا معنی بالکل واضح ہے اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور و تدبر کریں:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًاo} (الاحزاب: 21)
’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ