کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 149
آپ اس آیت کریمہ میں غور کریں اور سوچیں کہ جب قرآن کریم سارے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم دشمنوں کے ساتھ بھی عدل و انصاف سے کام لو تو جو لوگ اپنے ہوں گے۔ ان کے ساتھ کیسے عدل و انصاف کا حکم نہیں دے گا؟ اسی لیے ہم تقریباً بیس سال سے دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ ہم بھی ائمہ کرام اور علماء عظام کا ادب و احترام کرتے ہیں۔ ان کی باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن ہم میں اور جمہور مسلمانوں میں بڑا فرق ہے۔ ہم کلی طور پر ادب و احترام کے باوجود کبھی کبھی ان سے علمی اختلاف بھی کرتے ہیں اور یہ کوئی عیب بات نہیں ہے۔ ممکن ہے یہی چیز اختلاف کا سبب بنا ہو، ہم علماء کرام اور ائمہ عظام کا احترام اس لیے کرتے ہیں کہ وہ دین کے ہادی و رہبر ہیں۔ وہ کتاب و سنت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ انہیں سے شرعی علوم بھی حاصل کرتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں کہتے ہیں اور نہ ہی اس پر ہمارا یقین ہے کہ معروف و مشہور طریقہ کے علاوہ علم حاصل کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ بھی ہے یعنی ہمارے پاس صوفیوں کا طریقہ برائے حصول علم ہرگز نہیں ہے[1] ان کے نزدیک علم حاصل کرنے کا طریقہ الہام ہے۔ یہ ’’الہام، صوفیوں کے نزدیک ’’وحی‘‘ کے مشابہ ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ امام غزالی اپنی کتاب ’’إحیاء علوم الدین‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ انسان اپنے مجاہدہ و مراقبہ اور خلوت میں رب سے مناجات کے وقت الہام سے وہ علم حاصل کرلیتا ہے جس کا اسے پہلے علم نہیں تھا وہ ایک خاص طریقہ ذکر کرتے ہیں کہ آدمی تاریک کمرہ میں گوشہ نشین ہوجائے، اپنا سر اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لے اور اپنی آنکھوں کو بند کرلے۔ اس طرح کرکے وہ تین تاریکیوں میں بیٹھتا ہے ایک کمرہ کی تاریکی، دوسرا آنکھ بند کرنے کی تاریکی اور تیسرا جہت کی تاریکی، اب وہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اس پر کوئی وحی
[1] ۔ صرف صوفیاء ہی نہیں بلکہ روافض بھی انہیں کی طرح ہیں۔ یہ لوگ بھی اپنے ائمہ کے لیے عصمت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے کلام کو قبول کرتے ہیں اور اسے شرعی دلائل و براہین کا مقام دیتے ہیں۔ بلکہ کتاب و سنت کے نصوص پر اس کو مقدم کرتے ہیں۔ ان کے برعکس اہل سنت والجماعت کا شعار ہمیشہ اعتدال پسندی کا ہے وہ ائمہ کرام کے احترام کے ساتھ ساتھ ان کے جو اقوال کتاب و سنت کے موافق ہوتے ان کو لیتے بھی ہیں اور جہاں ان سے لغزش ہوتی ہے اسے چھوڑ دیتے ہیں یہی بات ائمہ کرام نے بھی کہی ہے۔