کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 146
یہ بات بھی آپ کے سامنے واضح کردینا چاہتے ہیں کہ سارے ائمہ کرام اس قول میں متفق ہیں کہ: ’’إذا صحّ الحدیث فہو مذہبی‘‘[1]جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔‘‘[2]
[1] یحب فلانا وفلانا…اسماء لائمۃ السنۃ۔فاعلم أنہ صاحب سنۃ‘‘ یعنی جب تم کسی شخص کو ان ائمہ سنت سے محبت کرتے دیکھو تو جان لو کہ یہی سنی ہے۔ ((واحدی علامات اہل السنۃ حبہم لأئمۃ السنۃ وعلمائہا وانصارہا وأولیائہا وبغضہم لأئمۃ البدع الذین یدعون الی النار۔)) یعنی اہل سنت کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ ائمہ سنت، اس کے علماء اس کے پیروکار اولیاء کرام سے محبت کرتا ہے اور ائمہ بدعت و خرافات سے بغض و عناد رکھتا ہے۔‘‘
[2] ۔ یقینا ائمہ کرام رحمہ اللہ کے اقوال و آراء اگر کتاب و سنت کے مخالف ہوں تو انہوں نے پوری دیانت داری کے ساتھ بڑی سختی سے ان اقوال کو لینے سے منع کیا ہے۔ امام بیہقی نے ’’مناقب الشافعی‘‘ (1/472) میں صحیح سند کے ساتھ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے: ((إذا وجدتم فی کتابی خلاف سنۃ رسول اللّٰه صلي الله عليه وسلم فقولوا بسنۃ رسول اللّٰه صلي الله عليه وسلم ودعوا ما قلت۔)) جب تم میری کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی چیز پاؤ تو میری بات کو چھوڑ دو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لے لو۔‘‘
ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’’بیان العلم وفضلہ‘‘(2/32) میں مالک بن انس رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں: ((إنما أنا بشر أخطی وأصیب، فانظروا فی رأي، فکل ما وافق الکتاب والسنۃ فخذوہ، وکل مالم یوافقہ الکتاب والسنۃ فاترکوہ۔)) یقینا میں بھی ایک انسان ہوں مجھ سے بھی غلطی ہوجاتی ہے اور درست بھی کہتا ہوں، لہٰذا تم لوگ میری رائے کو دیکھو، اگر وہ کتاب و سنت کے موافق ہے تو لے لو اور اگر موافق نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دو۔‘‘
اسی طرح ابن عبد البر نے مذکورہ بالا کتاب کے (2/148،149) میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ ان کا یہ قول نقل کیا ہے: ((رأی الأوزاعی، ورأی مالک، ورأی أبی حنیفۃ کلہ رأی، وہو عندی سوائ، وإنما الحجۃ فی الآثار)) امام اوزاعی کی رائے ہو یا امام مالک اور امام ابوحنیفہ کی رائے ہو یہ سب رائیں ہیں اور میرے نزدیک یہ سب برابر ہیں۔ لیکن دلیل اور حجت صرف حدیث میں ہے کسی کی رائے یا قول میں نہیں، امام احمد رحمہ اللہ کے اس قول میں شاہد یہ ہے کہ اگر ائمہ کرام رحمہ اللہ کے اقوال و آراء کتاب و سنت کے خلاف ہیں تو ایسی صورت میں ان اقوال و آراء کا کوئی اعتبار و مقام نہیں ہے۔ اس کے باوجود امام احمد رحمہ اللہ سے صحیح سند سے یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے سلف صالحین کے اقوال کو چھوڑ کر کسی شاذ قول پر عمل کرنے کو سخت ناپسند کیا ہے بلکہ اس پر ڈانٹ بھی پلائی ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے میمونی شاگرد سے کہا: ’’یا أبا الحسن إیاک أن تتکلم فی مسألۃ لیس لک فیہا إمام‘‘ اے ابوالحسن! کوئی ایسا مسئلہ جس میں کسی امام کا کوئی قول نہ ہو اس مسئلہ میں بات کرنے سے بچو اور احتیاط کرو۔‘‘/