کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 144
إحراق کتب المذاہب جمیعا۔))
صورتحال بتاتی ہے کہ بہت ہی کم ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس منہج کو قبول کیا ہے۔ البتہ اکثریت اس کے خلاف ہیں۔ ان کے خیال میں یہ مذاہب بہت بڑی آڑ اور روک ہیں لہٰذا ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ضروری ہے ہم نے ان کے بڑوں کو دیکھا اور ان سے سنا بھی ہے وہ ببانگ دہل اس رائے کو بیان کرتے ہیں۔ البتہ ان میں جو متوسط طبقہ ہے وہ تو یہ کہتا ہے کہ ان مذاہب کی ساری کتابوں کو جلادینا ضروری ہے۔
قارئین کرام! کاتب نے مذکورہ بالا کلام کو سلفی کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس نے سلفی حضرات کو دو قسموں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک چھوٹا اور ایک بڑا، یقینا کاتب کی یہ تقسیم اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ وہ ان لوگوں کی تنقید میں حد سے تجاوز نہیں کرے گا بلکہ انصاف سے کام لے گا۔ کاتب کے ان سطور کو دیکھنے اور سننے کے بعد مجھے د و باتیں آپ کے گوش گزار کرنی ہیں۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بہت اہم ہے لہٰذا جو زیادہ اہم ہے اسی سے شروع کرتے ہیں اس کے بعد دوسرے کو بیان کریں گے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مذاہب اربعہ اور ان کے ائمہ کے بارے میں سلفی دعوت کا موقف کیا ہے؟ یہ زیادہ اہم ہے۔
دوسری بات یہ کہ کیا سلفی دعوت کا کوئی فرد اس قسم کی بات بیان کرسکتا ہے جس کو کاتب نے بیان کیا ہے اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ اس کے ایک حصہ کو سلفی حضرات کے بڑے لوگوں کی طرف منسوب کیا ہے جبکہ اس کے دوسرے حصے کو ان کے متوسط کی طرف منسوب کیا ہے۔
رہی پہلی بات تو ہم بڑے واضح انداز میں ڈنکے کی چوٹ پر ہمیشہ بیان کرتے آئے ہیں اور گزشتہ درس میں ہم نے اس موضوع پر بہت کچھ آپ کے سامنے رکھا بھی تھا۔ جنھیں مزید بیان کرکے درس کو طول دینا پسند نہیں کرتے پھر بھی یاد دہانی کے طور پر کچھ باتیں گوش گزار کئے دیتا ہوں۔
ہم ہمیشہ ببانگ دہل یہ بات کہتے چلے آئے ہیں کہ سلفی دعوت کی بنیاد کتاب و سنت