کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 139
جس کو ہدایت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ((من یرد اللّٰہ بہ خیرایفقیہہ فی الدین۔))[1] ’’اللہ تعالیٰ جس سے خیر چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔‘‘ تعجب کی بات یہ ہے کہ لوگ امام غزالی کی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ اور اس جیسی دوسری کتابوں میں ایک حدیث پڑھتے ہیں جس کی نسبت یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتے ہیں، حالانکہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے حدیث یہ ہے: ((رُبّ تالٍ للقرآن، والقرآن یلعنہ۔))[2] ’’یعنی بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔‘‘ اب یہ حدیث کس پر صادق آتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث ان لوگوں پر صادق آتی ہے جو قرآن کو پڑھتے ہیں لیکن اس میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں۔ یہی بات میں آیت {وَاِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ } کی مناسبت سے بھی کہوں گا کہ کیا یہ آیت منسوخ ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ آیت قرآن مجید میں موجود ہے اور محکم ہے۔ علماء تفسیر اس آیت کی مناسبت اور اس کا شانِ نزول بیان کرتے ہیں۔ لیکن جب عام مسلمان اس کو فقط برکت کے لیے پڑھتا ہے تو دلوں میں اس کی تاثیر کہاں سے آئے گی اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا: ((القرآن حجۃ لک أوعلیک۔))[3] ’’قرآن مجید یا تو تمہارے موافق حجت ہے یا تمہارے خلاف۔‘‘ اب گویا یہ قرآن مجید تمام مسلمانوں کے خلاف حجت ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس کو تبرک کے لیے پڑھتے ہیں عبرت کے لیے نہیں؟ خبر کی تصدیق کرنا ضروری ہے: تقریباً نصف صدی کا زمانہ گزر گیا۔ ہر سال لوگ ہمارے اوپر نوع بنوع تہمتیں لگاتے
[1] ۔ صحیح بخاری: 1،35، صحیح مسلم:2/719۔ [2] ۔ یہ حدیث ’’إحیاء العلوم، للغزالی‘‘ میں بغیر سند کے موجود ہے۔ اس لیے قرین قیاس پر ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔ [3] ۔ یہ ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ صحیح مسلم: 1/203۔