کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 138
دخلوا حجر ضب لدخلتموہ۔))[1]
’’تم لوگ بالکل اپنے سے پہلے لوگوں کی سنتوں کی پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی داخل ہوگے۔‘‘
اب آپ اس حدیث پر غور کرکے بتائیں کہ کیا آج کا مسلمان اس مہلک مرض میں مبتلا ہے یا نہیں؟ یقینا آج کا مسلمان خواہ وہ عالم ہو یا عام آدمی سب یہود و نصاریٰ کی روش کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ إلا من ہداہ اللّٰہ۔
دوسری جانب آج ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ فلاں خطیب جھوٹ بول کر لوگوں سے کہتا ہے کہ: ’’فلاں شخص مسلمانوں کو کافر کہتا ہے‘‘ اب سامعین اس سے اس خبر کی تحقیق نہیں کرتے ہیں کہ آیا اس نے سچ کہا ہے یا کسی پر بہتان باندھا ہے۔ حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ،} (الحجرات:6)
’’اے مومنو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں تم کسی قوم کو تکلیف پہنچاؤ پھر تم اپنے کئے ہوئے پر شرمندہ ہو۔‘‘
کیا یہ آیت منسوخ ہے؟ کس نے اس کو منسوخ کیا ہے؟ نہیں، یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ بلکہ پورا قرآن منسوخ ہے، کیونکہ اس پر کوئی عمل نہیں کرتا ہے اور کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ قرآن مجید اور حدیث کو پڑھے مگر صرف برکت حاصل کرنے کے لیے۔ یقینا آج یہی ماحول ہے۔ آج قرآن مجید کو صرف برکت حاصل کرنے کے لیے پڑھا جاتا ہے۔ اسی لیے لوگوں کے دلوں پر زنگ پڑگیا ہے اور وہ قرآنی آیات سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی حدیث رسول کو اس لیے پڑھتے ہیں تاکہ اس سے عبرت حاصل کریں بلکہ یہ بھی برکت ہی کے لیے پڑھی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ
[1] ۔ رواہ البخاری: 2/492، ومسلم:4/54۔