کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 137
جس کو حرام کردیا اس کو حرام سمجھ لیا اور یہی رب بنانا ہوا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ} (التوبہ:31)
’’انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو رب بنالیا اللہ کو چھوڑ کر اور مسیح بن مریم کو بھی۔‘‘
عام نصاریٰ کو یہ نہیں معلوم ہے کہ انجیل میں کیا ہے اور تورات میں کیا ہے یہ صرف ان کے راہبوں اور مشائخ کے لیے خاص ہے۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ یہ مشائخ آسانی سے عوام کو اپنا غلام بناسکیں ان پر اپنی حکومت قائم رکھ سکیں۔ اب جو یہ بتائیں گے اسی کے مطابق ان کو عمل کرنا ہے۔ حال ہی میں ان کے یہاں ایک قرار پاس ہوا کہ راھبائیں اب اپنا سر کھول سکتی ہیں کیونکہ حالات بدل گئے ہیں اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ گویا کہ یہ علماء و مشائخ جس کو چاہیں حلال کریں اور جس کو چاہیں حرام کریں۔
اہل کتاب کی پیروی اور ان کی مشابہت سے ممانعت:
گزشتہ سطور کی روشنی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں کے لیے یہ جائز ہے کہ یہود و نصاریٰ جیسا فہم اختیار کریں؟ ہرگز نہیں۔ گزشتہ آیت یعنی’’اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اسی لیے ذکر کیا ہے تاکہ اس امت کے علماء و مشائخ اس سے عبرت حاصل کریں اور یہود و نصاریٰ کے علماء و مشائخ جیسا راستہ اختیار کریں پھر اللہ کو چھوڑ کر اپنی مرضی سے جس کو چاہیں حلال کریں اور جس کو چاہیں حرام کردیں یہ تو علماء کے لیے ہوا۔ رہے عوام تو ان کا بھی فرض ہے کہ وہ کسی عالم کی اندھی تقلید میں نہ پڑیں بلکہ ایسے عالم کی بات کو مانیں جو قرآن و حدیث کی واضح دلیل سے مسئلہ کو واضح کرتا ہو۔ مگر افسوس اور صد افسوس کہ یہود و نصاریٰ جیسی بیماری اس امت میں بھی پیدا ہوگئی ہے اور {اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ} والی آیت سو فیصد ہمارے اندر بھی صادق آرہی ہے۔ سچ فرمایا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
((لتتبعنّ سنن من قبلکم شبرًا بشبر، وذراعًا بذراع، حتی لو