کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 136
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانے اور انہیں دونوں کی باتوں کے ماننے کا حریص بھی ہو، لیکن جاہل اور ان پڑھ عالم سے سوال کرے گا۔ اب اگر اس عالم نے اللہ اور اس کے رسول کی بات بتادی تو یہ جاہل اس عالم کی بات کو ردّ کردیتا ہے اور اس کے اعراض کرجاتا ہے، یہ بات صرف عوام الناس تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ علماء اور واعظین حضرات بھی اس میں شامل ہیں۔ ایسے ہی علماء اور واعظین کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے جبڑوں کو آگ کے لوہے سے کھینچا جاتا ہے اور آگ کے کانٹے سے بھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جبریل علیہ السلام سے سنا اور خود اس منظر کو دیکھا تو فرمایا: یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے فرمایا: یہ لوگ تمہاری امت کے وہ خطباء اور واعظین ہیں جو کہتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے ہیں۔‘‘[1]
تقلید کی مذمت اور اس میں اہل کتاب کی مشابہت:
وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم کتاب و سنت کی پیروی کرتے ہیں۔ اسی کے مطابق اپنا سارا عمل انجام دیتے ہیں۔ لیکن جب واقعی ان کے پاس کتاب و سنت آجاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کتاب و سنت کو نہیں سمجھتے ہیں۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے جب وہ کتاب و سنت کو نہیں سمجھتے ہیں تو کون سمجھے گا؟ گویا کہ اب کتاب و سنت کا سمجھنے والا کوئی باقی نہیں رہ گیا۔ اس کا واضح مطلب یہی ہوگا کہ اسلام کے خلاف فیصلہ کیا جائے گا ۔ بہتر یہ ہوتا اگر وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان علماء کرام سے شریعت کے احکام و مسائل لیتے ہیں جو کتاب و سنت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور وہ یقینا متاخرین کی بہ نسبت زیادہ علم رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم متاخرین پر جہل کا حکم لگادیں اور یہ کہہ دیں کہ وہ کتاب و سنت جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے ہیں، یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے نصاریٰ کا معاملہ ان کے اپنے علماء و مشائخ کیساتھ ہوتا تھا۔ ان کے علماء و مشائخ نے جس کو حلال کیا کہا اس کو حلال سمجھ لیا اور
[1] ۔ مسند احمد: 3/120،231۔