کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 134
پوچھا جائے گا کہ فلاں مسئلہ میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ عالم اور جاہل میں اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ دونوں حق کی معرفت کیسے حاصل کریں لیکن دونوں کو کتاب و سنت کے مطابق ہی عمل کرنا ضروری ہے۔
’’عالم‘‘ سبب ہے مقصد نہیں:
یہ بدیہی امر ہے کہ عالم ایک سبب ہے حق بات جاننے اور پہچاننے کا، چونکہ عالم کے پاس کتاب و سنت کا علم ہوتا ہے اور جاہل آدمی کے پاس یہ خبر نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس شخص کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اسی عالم کے ذریعے معلوم ہوں گے تو یہ عالم ایک ذریعہ اور سبب بنا لیکن مقصد نہیں۔ بلکہ مقصد تو کتاب و سنت کی پیروی ہے۔ لیکن جب معاملہ اس کے خلاف ہوجائے۔ یعنی کتاب و سنت کے بجائے مسلک یا مذہب کی رہنمائی کی جائے تو یہی کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ (اللہ تعالیٰ اس سے ہم سب کو محفوظ رکھے)
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی مسئلہ میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بجائے عالم سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ اس مسئلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ وہ عالم جواب دیتا ہے کہ اس مسئلہ میں میری رائے یہ ہے وہ اسی کی بات مانتا ہے اور اسی پر عمل بھی کرتا ہے۔ حالانکہ ہونا چاہیے کہ جس ذات پر ایمان لایا ہے اس کا حکم پوچھنا چاہیے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہے تو مسئلہ کے اندر انہی دونوں کا حکم پوچھنا چاہیے۔ کیونکہ اس کا قلب و جگر، اس کی عقل و فکر، موت و حیات صرف اللہ کے لیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} (الانعام:162)
’’آپ کہہ دیجیے کہ میری نماز، میری عبادت، میرا جینا اور مرنا اس اللہ کے لیے جو سارے جہان کا رب ہے۔‘‘
تو جب انسان کا سارا وجود اللہ کے لیے ہے تو اسے سوال کرنے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم پوچھنا چاہیے۔ لیکن اگر معاملہ کو الٹ دیا جائے اور سبب اور ذریعہ کو مقصد و غایت