کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 132
زندگی بھر غیر اللہ کی عبادت کرتا رہتا ہے اور اس کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ غیر اللہ کی پوجا کرتا ہے۔[1] یہی نہیں بلکہ وہ مسجد میں داخل ہوتا ہے اس مسجد میں قبر ہوتی ہے وہاں جاکر اس سے مانگنا شروع کردیتا ہے، وہ مردہ سے مانگتا ہے جبکہ وہ گل سڑگیا ہے اور اللہ کو چھوڑ دیتا ہے جو زندہ ہے اور سب کو دیتا ہے اور اگر یہ میت زندہ ہوتا تب بھی ہر فریادی کی ہر ضرورتوں کو پوری نہیں کرسکتا… میں کہتا ہوں کہ ان تمام اعمال کے باوجود ہم ان پر کفر کا حکم نہیں لگا سکتے کیونکہ ان پر حجت قائم نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں شام میں سلفی داعیوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے جو یہاں کے لیے کافی ہو۔ ان کی تعداد بہت ہی کم ہے پھر ان کی باتوں کو سننے والے بھی دال میں نمک کے برابر ہیں۔ وہی مختصر لوگ ان کے پروگرام میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی باتوں پر توجہ بھی دیتے ہیں۔ مذہب کے پیروکاروں کے بارے میں ہمارا موقف: ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اگر وہ سب کے سب یا ان میں سے کوئی ایک فرد کفر و شرک میں واقع ہوگیا تو ہم اس پر کفر کا حکم نہیں لگائیں گے۔ یعنی ہم اس کو کافر نہیں کہیں گے۔ لیکن ہم اس سے یہ بات ضرور کہیں گے کہ تمہارا یہ عمل کفرانہ یا مشرکانہ عمل ہے۔ تم اس سے باز آجاؤ۔ آج جمہور مسلمان جس راہ کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور اسی راہ کو اپنا دین بھی بنائے ہوئے ہیں وہ ہے تقلید۔ یعنی آج جمہور مسلمان مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کی تقلید
[1] ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ لوگوں پر حکم لگاتے وقت اس کا خیال کرنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ بہت سے لوگ شرک و کفر میں مبتلا ہیں لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ ان کا یہ عمل کفر ہے یا شرک بلکہ ان کا گمان یہ ہوتا ہے کہ ان اعمال سے وہ اللہ کی قربت حاصل کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں، جانور ذبح کرتے ہیں، مردوں کو پکارتے ہیں، اس کے علاوہ بے شمار حرکتیں انجام دیتے ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر ان کی جہالت کی وجہ سے کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا۔ ایسے موقع پر ضرو ری ہے کہ انہیں حق کی دعوت دی جائے۔ کتاب و سنت کی صحیح تعلیمات سے انھیں آگاہ کیا جائے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی یہ تحقیق بڑی عمدہ ہے اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ سلفی دعوت اسی اصول پر قائم ہے جب تک صحت نہ قائم ہوجائے وہ کسی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگاتی۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔