کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 131
نہیں جواب دے پاتا ہے کیونکہ اس کو کچھ علم نہیں ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ((ان الرجل لیتکلم بالکلمۃ، لا یلقی لہا بالا، یھوی بہا فی النار سبعین خریفًا۔))[1] ’’بے شک آدمی بات کرتا ہے یا اپنی زبان سے کوئی کلمہ ادا کرتا ہے تو اس پر کچھ توجہ نہیں دیتا ہے اس کے ذریعہ وہ ستر سال کی دوری تک جہنم میں گرا دیا جاتا ہے۔‘‘ـ یہ حدیث اس شخص پر مکمل صادق آتی ہے جو مسجد میں داخل ہو کر ’’یا باز‘‘ پکارنے لگتا ہے اور ’’اللہ ‘‘ کو بھول جاتا ہے۔ اس کی زبان سے جو الفاظ ادا ہوئے تھے وہ کفریہ الفاظ تھے اور یہی اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ لیکن میں انتہائی افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ جاہل ہے اس کے پاس سمجھ نہیں ہے۔ مگر اس کو تعلیم کون دے؟ وہ جب اپنی زبان سے یہ جملہ ادا کرتا ہے ’’یا باز أغثنی‘‘…’’اے باز تو میری فریاد قبول کر‘‘ تو اس کو یہ نہیں معلوم ہے کہ یہی اللہ کے علاوہ باز کی عبادت ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی تنہا اس مرض میں نہیں مبتلا ہے بلکہ اس کی طرح بہت سے لوگ بلکہ پورا معاشرہ اس مرض میں مبتلا ہے۔ ان سب کو یہ نہیں معلوم کہ غیر اللہ کو پکارنا ہی دراصل اس کی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کو شریک کرتا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کو بہت سے لوگ نہیں سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توحید کی دعوت پر ایک عرصہ گزر گیا۔ اس میں بہت سی شرکیات اور و ثنیات داخل ہوگئی ہیں۔ انہیں جراثیم نے مل کر توحید پر پردہ ڈال دیا ہے۔ اب لوگ اسی مہلک مرض میں مبتلا ہوگئے یہاں تک ان کی موت آگئی اور وہ شرک سے بچ نہیں سکے۔ اب آپ خود سوچئے کہ اس دنیا میں اس انسان کے جینے سے کیا فائدہ جو
[1] ۔ حدیث اس لفظ کے ساتھ مسند احمد: 355/2 میں صحیح سند کے ساتھ ہے۔ نیز صحیح بخاری : 2/187، وصحیح مسلم: 4/2290 میں بھی ہے۔