کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 121
وہ بچی کیسے جواب نہ دیتی جبکہ وہ ایسی سوسائٹی اور ایسے مدرسہ میں زندگی گزار رہی تھی جس کو آج کے دور میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مدرسہ کہا جاتا ہے۔ اس کا آقا اور مالک اس کا شاگرد قرار پایا۔ اسی نے اس عقیدہ کو اس کی طرف منتقل کیا تھا۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اللہ کے بارے میں سوال کیا تو اس نے فوراً صحیح جواب دے دیا اور وہ کیسے جواب نہ دیتی اس نے اگرچہ سورۂ ملک کو زبانی یاد نہیں کیا تھا لیکن اس سورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے مالک سے سنا تو ضرور تھا، اس میں یہ آیت ہے: {اَمْ اَمِنتُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُوْنَ کَیْفَ نَذِیرِ} (الملک:17) اس حدیث کے بارے میں خلفیوں کا موقف: آپ جانتے ہیں کہ آج کل خلف کا موقف کیا ہے (خلف سے مراد بعد کے لوگ جو لوگ منہج سلف کی مخالفت کرتے ہیں) یہ لوگ کتابیں بھی لکھتے ہیں۔ رسائل اور جریدے بھی نکالتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خلف کا علم اعلم اور احکم ہے؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جس سوال کا ذکر مذکورہ حدیث میں آیا ہے آج کے دور میں اس کو پیش کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ منہج سلف کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ احادیث صحیحہ کی بھی مخالفت کرتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ ان کا تعلق عقیدہ سے ہوتا ہے جبکہ ان احادیث کی صحت پر تمام علماء محققین و محدثین کا اجماع ہوتا ہے ان میں سے مذکورہ حدیث جاریہ (لونڈی) بھی ہے۔[1] اس روایت کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں، امام مالک نے ’’مؤطا‘‘ میں، امام احمد نے ’’مسند‘‘ میں روایت کیا ہے ان کے علاوہ بھی لوگوں نے اس کو روایت کیا ہے اور اس کو
[1] ۔ یہ لوگ اس حدیث کے متن میں اختلاف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کے متن میں اختلاف زیادہ ہے۔ اس بارے میں وہ ضعیف روایتوںکا سہارا لیتے ہیں یا دوسری ایسی حدیثوں کا جن کا ادنیٰ تعلق اس حدیث مذکورہ سے نہیں رہتا ہے۔