کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 118
نے دیکھا کہ اس معنی کے مراد لینے سے کتنی بڑی خرابی آجاتی ہے تو) انھیں ہوش آگیا اسی لیے ان کا بڑا شخص جو آیات صفات اور احادیث صفات میں سلف صالحین کے طریقے سے منحرف ہوگیا ہے وہ یہ صراحت کرتا ہے کہ ’’استویٰ‘‘ کا معنی ’’استولیٰ‘‘ ہوگا لیکن اس میں مغالبہ کا معنی نہیں ہوگا اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس معنی سے اس نے آیت کی تفسیر کی تھی اس نے وہ معنی ہی بیکار کردیاکیونکہ جب اس سے مغالبہ کا معنی ختم کردیا گیا تو اب کوئی معنی ہی باقی نہیں رہا۔ درحقیقت یہ اس نص کی تعطیل ہے بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے دوسری آیاتِ صفات اور احادیث صفات کو معطل کردیا ہے اسی لیے مجھے علامہ ابن القیم رحمہ اللہ یا علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منقول یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ انہوں نے کہا: ((إن المجسمء یعبدون صنما، والمعطلۃ یعبدون عدما۔))[1] ’’یعنی مجسمہ صنم کی پوجا کرتے ہیں اور معطلہ عدم کی۔‘‘ گویا کہ یہ سب ایسی اشیاء کی پوجا پاٹ کرتے ہیں جس کا وجود نہیں ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات سے صفت علوی کی نفی کردی۔ نہ صرف استواء والی آیت میں بلکہ اس کے علاوہ دوسری بہت سی آیتوں میں اور بہت سی حدیثوں میں بھی۔ الحمد للہ اس بارے میں ائمہ سلف کی کتابیں بہت ہیں۔ اب میں ائمہ خلف کے بعض اقوال کو ذکر کر رہا ہوں۔ لوگ اس خیال میں کہ وہ اللہ کو ہر عیب سے منزہ کر رہے ہیں اس سے صفت علوی کی نفی کردی اور یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کا وصف یہ نہیں بیان کیا جائے گا کہ وہ نہ تو فوق ہے، نہ تحت، نہ یمین ہے نہ یسار، نہ آگے ہے نہ پیچھے، نہ دنیا کے اندر ہے نہ دنیا کے باہر۔ اندازہ لگائیے کہ یہ لوگ اپنے معبود اللہ کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کہہ رہے ہیں۔
[1] ۔ یہ دوسرا حصہ یعنی ’’والمعطلۃ…‘‘ سلف کی ایک جماعت سے ثابت ہے اس میں ابن المبارک، علی بن المدینی اور اہل علم کی ایک جماعت شامل ہے۔ ان سے ان کی عبارتوں کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ:5/52۔53)