کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 117
کے تمام معانی سے جاہل ہوگئے اور کہہ دیا: ’’اللّٰه اعلم بمرادہ۔‘‘ ’’یعنی اللہ تعالیٰ اس کی مراد کو اچھی طرح جانتا ہے۔‘‘ اب جنہوں نے ’’استویٰ‘‘ کی تعریف ’’استولیٰ‘‘ سے کی ہے کاش کہ وہ لوگ خاموش رہتے اور کچھ نہ بولتے اور اس کو تفویض کردیتے۔ اس لیے کہ یہی وہ ہے جس سے انہوں نے راہ فرار اختیار کیا تو انہوں نے کس سے راہِ فرار اختیار کی؟ جب امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: ’’الإستوائ‘‘ معلوم ہے اور وہ استعلاء ہے یعنی ’’استوائ‘‘ استعلاء کے معنی میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ استعلاء کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ جہت علو میں ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم جہت کو مانتے ہی نہیں ہیں لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے لیے علو ہے تو اب{اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی}کا معنی کیا ہوگا۔ انہوں نے جواب دیا: سبحان اللہ لفظ ’’استولیٰ‘‘ عربی زبان میں اس بات کا مقتضی ہے کہ یہاں اللہ اور اس کے غیر کے درمیان مغالبہ (ایک دوسرے پر غلبہ) کا معنی پایا جائے اور یہ ’’غیر‘‘ مخلوق کے علاوہ کون ہوسکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر غالب ہوگیا۔ مگر یہ بات کون کہے گا؟ (جب انہوں [1]
[1] / منسوب کرکے کہتے ہیں کہ آپ نے کہا ہے: ’’إن مؤسس الدعوۃ السلفیۃ ہو اللہ۔‘‘ ’’یعنی سلفی دعوت کی بنیاد اللہ نے رکھی ہے‘‘ تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور اگر صحیح ہے تو ہم اس کی طرف کیسے ایسی صفت کی نسبت کرسکتے ہیں جس کی نسبت خود اس نے اپنے لیے نہ کی ہو؟ شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا: ہاں میں نے یہ بات کہی ہے اور یاد رکھو کہ یہ صفت نہیں ہے اور کسی حقیقت کی تعبیر کے لیے اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں بات کرنے سے یہ مقصود نہیں ہوتا ہے کہ ہم اللہ کا وصف ایسی چیز سے بیان کر رہے ہیں جس سے اس نے خود نہیں بیان کیا ہے۔ اب جب کوئی یہ کہے کہ فلاں شخص فلاں دعوت کا بانی ہے تو اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ مؤسس اور بانی اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اسی نے اس کائنات کی بنیاد رکھی ہے تو یہ وصف نہیں ہے جس کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر جائز نہیں ہے اور تاسیس انسانی طاقت میں نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کا حکم ہے اور یہی فتویٰ شیخ عبد الرزاق عفیفی رحمہ اللہ نے بھی دیا تھا جب ان سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس بات کی خبر دینا جائز ہے کہ وہ واجب الوجود ہے؟ تو آپ نے ایسا جواب دیا جو اس قول کو شامل تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس بات کی خبر دینا صحیح ہے کہ وہ واجب الوجود ہے، اس طرح اخبار (خبر دینے) کے باب سے ہے نہ کہ صفت کے باب سے۔ (فتاویٰ الشیخ عبد الرزاق عفیفی: 1/164) علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اسماء و صفات کے باب میں اطلاق شدہ امر توقیفی ہے۔ البتہ جس اخبار میں ان کا توقیفی ہونا واجب نہیں جیسے قدیم شیئ، موجود ،قائم نفسہ۔‘‘ (بدائع الفوائد:1/162)