کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 116
بالخصوص اس دوسری مثال میں کہ آیات صفات اور احادیث صفات میں کیا موقف ہونا چاہیے۔ آیات صفات اور احادیث صفات کے باب میں ان کا ایمان عربی مفہوم پر ہے لیکن تنزیہہ کے ساتھ گویا کہ یہ لوگ سلفی دائرے میں آنا چاہتے ہیں اور نہ ہی معتزلہ ہونا چاہتے ہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ وہ معانی جو آیات صفات اور احادیث صفات میں وارد ہوئی ہیں ہم ان کی عربی مفہوم پر تنزیہہ کے ساتھ تفویض کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کا نام ’’مفوضۃ‘‘ ہوگیا۔[1]
اور یہاں ’’مفوضۃ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ دسیوں آیات اور وہ احادیث جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہیں ان سے لاعلمی اور جہالت اور انہیں بندوں میں عام کرنا، اور اگر تعبیر صحیح [2]ہو تو انھیں بعض صفات غیب کا تعارف کرانا اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہے پھر وہ ان
[1] ۔ خلف کے نزدیک تفویض کا معنی معلوم ہے یہ بہت قدیم مذہب ہے۔ یہ مذہب اثبات سلفی اور تاویل خلفی کے درمیان وسط کا مذہب ہے۔ مگر اتنا ضرور ذہن میں رہے کہ یہ مذہب سلف صالحین کے مذہب کے خلاف ہے۔ البتہ آج کل بہت سے داعی حضرات جو دعوت کے میں میدان میں کام کر رہے ہیں ۔ وہ اپنی دعوت میں منہج سلف یا مذہب سلف کا لفظ بار بار لاتے ہیں۔ وہ اس لفظ سے عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ منہج سلف کی دعوت دے رہے ہیں جبکہ ان کا مذہب ایسا نہیں ہے۔ یہ صرف مصلحت کی بناء پر ایسا کرتے ہیں تاکہ ان کی دعوت لوگوں میں عام ہو۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ: ’’نتعارف فیما اتفقنا علیہ، ویعزر بعضنا البعض فیما اختلفنا فیہ۔‘‘ ’’یعنی اتفاقی امور میں ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کو معذور سمجھتے ہیں۔‘‘ مگر یہ قاعدہ بالکل غلط اور باطل ہے۔ ہاں اگر اعتقادی امور میں اتفاق ہے اور وہ احکام و مسائل جن میں اجماع نہیں ثابت ہے اور ان میں مسلسل اختلاف چلا آرہا ہے تو عذر مقبول ہے بشرطیکہ وہ اجتہاد اور فتویٰ کے قابل ہوں۔ میں قاری کو شیخ احمد بن ابراہیم العثمان حفظہ اللہ کی کتاب ’’زجر المتھاون بضرر قاعدۃ المعذرۃ والتعاون‘‘ کے مطالعہ کا مشورہ دیتا ہوں۔ یہ کتاب مذکورہ بالا قاعدہ کے مالہ وما علیہ پر بہت نفع بخش ہے اس کا مقدمہ شیخ صالح فوازن، شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ نے لکھا ہے۔
[2] ۔ افضل اور اولیٰ بات یہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی تعبیر ایسی چیز سے کی جائے جس سے خود اس نے اپنے بارے میں تعبیر کیا ہے یا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعبیر کیا ہے یا صحابہ کرام نے تعبیر کیا ہے۔ سلف صالحین کی عبارات سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے اور شیخ البانی رحمہ اللہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے منہج سلف مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ مختصر ’’العلو‘‘ کے مقدمہ ص:18۔19، میں ان کی تعلیق کا ملاحظہ کرلیجیے آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا، اسی لیے شیخ رحمہ اللہ نے ’’إن صحح التعبیر‘‘ کا جملہ استعمال کیا ہے جو آپ کے غایت درجہ و رع و تقویٰ کی علامت ہے اور وصف کے خلاف تعبیر بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ وصف توقیفی ہے۔ شیخ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ لوگ آپ کی طرف /