کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 113
کے ساتھ ہیں۔ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے صفت سمع اور بصر ثابت کرتے ہیں۔ پھر جب معتزلہ نے ان سے کہا کہ اس سے تو تشبیہ لازم آتا ہے کیونکہ انسان کے پاس بھی سمع و بصر ہے۔ جیسا کہ خود قرآن آدم علیہ السلام کے بارے میں گواہی دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا} (الدہر:2) ’’پھر ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنایا۔‘‘ تو یہاں اشاعرہ اور ماتریدیہ نے وہی جواب دیا جو سلف صالحین نے دیا ہے یعنی انہوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اس چیز کے ساتھ متصف کرتے ہیں جس کے ساتھ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے، ہم کہیں گے {وَہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر}وہ سمیع و بصیر ہے لیکن اس جیسا کوئی نہیں {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ } اب ہم ان معتزلہ اور ماتریدیہ سے یہ کہیں گے کہ تم آیات صفات اور احادیث صفات میں سلف صالحین کے ساتھ ہوجاؤ اور ان تمام صفات کو ثابت کرو جن کو اس نے اپنے لیے ثابت کیا ہے لیکن تنزیہ کے ساتھ {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَّہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر} اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اس مذہب پر برقرار رہے؟ چونکہ ان لوگوں نے اس قاعدہ پر عمل کیا ((علم الخلف أعلم وأحکم أما علم السلف فہو اسلم فقط۔)) ’’یعنی خلف کا علم اعلم و احکم ہے جبکہ سلف کا علم صرف اسلم ہے۔‘‘ گویا کہ خلف کا علم سلف سے بڑھ کر ہے {کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا} [1]یہ کہہ کر واضح دلائل اور آیات کریمہ سے منحرف ہوگئے۔
[1] ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا: ’’بے شک یہ بدعتی لوگ جو خلف کو سلف پر فضیلت دیتے ہیں، انہوں نے یہ بات اپنے گمان کے مطابق کہی۔ کیونکہ ان کا گمان ہے کہ سلف الفاظ قرآن و حدیث پر صرف ایمان رکھتے ہیں انھیں ان کے معانی کی سمجھ نہیں ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے سلف کو ان امی اور ان پڑھ کے مقام پر کردیا جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے: {وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّا اَمَانِیُّ }’’اور ان میں امی بھی ہیں جو کتاب کو نہیں جانتے ہیں مگر اٹکل پچو۔‘‘ ان کے برخلاف خلف تو یہ لوگ عجیب و غریب اور مجازی معنی بیان کرتے ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ اسی فاسد گمان و تصورنے ان کو اس مقولہ کے کہنے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے سلف کو جھٹلادیا اور خلف کو اچھا سمجھ کر گمراہ ہوگئے۔ (مجموع فتاوی:5/9)