کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 111
مسلمان سجدہ میں ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کہتا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ نے بھی یہی جواب دیا تھا کہ لغت میں استواء کا معنی معلوم ہے۔ لیکن تم استواء کی کیفیت کے بارے میں سوال کرتے ہو کہ وہ کیسے مستوی ہے؟ تو یہ کیفیت مجہول ہے۔ اس کا علم کسی کو نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں وہی بات کہی جائے گی جو اس کی ذات کے بارے میں کہی جاتی ہے۔[1] مثلاً ہر مسلمان یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اللہ کا وجود ثابت ہے یعنی اللہ تعالیٰ موجود ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاسکتا کہ اللہ کی ذات کیسے ہے اور کیسے موجود ہے تو جب اس کی ذات کی کیفیت کو نہیں بیان کیا جاسکتا تو اس کی صفات کی کیفیت کو کیسے بیان کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ کیف مجہول ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور تو نامعلوم چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے لہٰذا تو بھی بدعتی ہے، اسی لیے اس کو اپنی مجلس سے بھگادینے کا حکم دیا… اوپر کی تفصیلی بیانات سے معلوم ہوا کہ مذہب سلف یہ ہے کہ صفات کی آیات ہوں یا احادیث ان پر اسی طرح ایمان رکھنا ہے جس طرح وہ ثابت ہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا لغوی معنی معلوم ہے اور بس۔ نہ تو اس کی تاویل کی جائے گی اور نہ ہی اس کی تشبیہ بیان کی جائے گی اور نہ ہی ان کی نفی کی جائے گی۔ اس لیے کہ
[1] ۔ یہی قول ائمہ علم و فن کے نزدیک معتمد ہے۔ خطیب بغدادی نے اپنے جزء ’’اکلام علی الصفات‘‘ میں کہا: ’’رہا صفات کے بارے میں کلام… تو جو کچھ سنن کی کتابوں میں سلف صالحین کا مذہب مروی ہے اس کو ثابت کیا جائے گا اور اس کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کیا جائے گا۔ اس سے کیفیت اور تشبیہ کی نفی کی جائے گی۔ نیز اس مسئلہ میں اصل بات یہ ہے کہ صفات کے بارے میں کلام فرع ہے اور ذات باری کے بارے میں کلام اصل ہے اور جب یہ بات معلوم ہے کہ ذات باری کا اثبات اس کے وجود کا اثبات ہے نہ کہ ذات کی تحدید یا کیفیت کا اثبات ہے۔ اسی طرح اس کی صفات کے اثبات کا مسئلہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب اس کی ذات کی کیفیت نہیں بیان کی جاسکتی تو اس کی صفات کی کیفیت کیسے بیان کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ ہے اور سمع و بصر ہے تو یہ کہہ کر صفات کو ثابت کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے ثابت کیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ’’ید‘‘ کا معنی ’’قدرت‘‘ ہے اور نہ یہ ہی کہیں گے کہ ’’سمع و بصر‘‘ کا معنی ’’علم‘‘ ہے۔ ابن قدامہ نے اس اعتقاد کو اپنی سند سے ’’ذم التاویل‘‘ ص:17،18 میں روایت کیا ہے اور یہ صحیح سند سے ثابت ہے جیسا کہ ہم نے اس کو ’’جزئ‘‘ کے اصل میں بیان کردیا ہے اور یہ میری (عمرو عبد المنعم) تحقیق سے طبع ہوچکی ہے۔