کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 110
صفات کے اثبات میں سلفی اصول: یہ بات عام و خاص سب کو معلوم ہے اور صحیح سند سے ثابت بھی ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور سوال کرنے لگا کہ اے مالک! ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی}’’یعنی رحمن عرش پر مستوی ہے۔‘‘ تو آپ بتائیے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر کیسے مستوی ہے؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا: ((الإستواء معلوم، والکیف مجہول، ولسوال عنہ بدعۃ اخرجوا الرجل فإنہ مبتدع۔))[1] یعنی ’’استوائ‘‘ کا معنی تو معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت مجہول ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور اس آدمی کو جلدی سے باہر نکالا کیونکہ یہ بدعتی لگ رہا ہے۔‘‘ یہاں امام مالک رحمہ اللہ نے کافی تسلی بخش جواب دیا ہے۔ آپ نے بتایا کہ عربی زبان میں لفظ ’’استوائ‘‘ کا معنی معلوم ہے اور وہ ’’علو‘‘ ہے۔ یعنی بلند ہونا گویا کہ اللہ تعالیٰ کا قول: {اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی} میں ’’استویٰ‘‘ بمعنی ’’استعلٰی‘‘ ہے۔ اسی لیے ہر
[1] ۔ یہ واقعہ امام مالک رحمہ اللہ سے مختلف سندوں سے وارد ہے جو سب کے سب ضعیف ہیں مجھے کوئی صحیح سند ابھی تک نہیں مل سکی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ میری کوتاہی کی وجہ سے ہو۔ لیکن یہی واقعہ امام مالک رحمہ اللہ کے استاذ ربیعہ بن ابی عبد الرحمن سے ثابت ہے۔ امام ذہبی نے صحیح سند سے اپنی کتاب ’’العلو‘‘ (352) میں ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ربیعہ بن ابی عبد الرحمن کے پاس تھا تو ان سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: { اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی} ’’رحمن عرش پر مستوی ہے۔‘‘ تو آپ بتائیے کہ وہ کیسے عرش پر مستوی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’’الإستواء غیر مجہول، والکیف غیر معقول، ومن اللّٰه الرسالۃ، وعلی الرسول البلاغ، وعلینا التصدیق۔‘‘ ’’یعنی استواء کا معنی معلوم ہے اور کیف مجہول ہے اور رسالت اللہ کی جانب سے ہے اور رسول پر اللہ کے پیغام کو پہنچا دینا ہے اور ہمارے اوپر رسول کے پیغامات کا تصدیق کرنا فرض ہے۔‘‘ یہ روایت ’’اللالکائی (665) میں اور ابن قدامہ کے ’’العلو‘‘(90) میں عن ابن عیینۃ عن ربیعۃ وارد ہے۔ اب جو اس عبارت میں غور کرے گا اس کے سامنے مندرجہ ذیل چند امور واضح ہوں گے۔ 1: بندوں کے نزدیک صفات کی کیفیت مجہول ہے، یعنی بندوں کو اس کا علم نہیں۔ 2: لغت کے اعتبار سے صفات کے معانی معلوم ہیں۔ 3: صفات پر ایمان لانا واجب ہے۔ اگرچہ اس کی کیفیت ہمیں نہیں معلوم ہے۔ 4: صفات کے بارے میں سوال کرنا، اس میں غوروفکر کرنا یا کمی و بیشی کرنا بدعت ہے۔ یہ سلف سے ثابت نہیں۔