کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 109
تشبیہ و تعطیل پر کلام: ’’تشبیہ‘‘ مشبہ کا مذہب ہے اور ’’تعطیل‘‘ مؤولہ کا مذہب ہے۔[1] رہے سلف صالحین تو یہ لوگ صفات کے معانی کو ان کے حقیقی معنی پر محمول کرتے ہیں اور اللہ کی ذات و صفات کو ہر قسم کی تشبیہ و تعطیل سے منزہ اور پاک قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ وہی بات کہتے ہیں جو قرآن کہتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ} (الشوری:11) ’’اس کے مانند کوئی نہیں ہے اور وہ سمیع ہے بصیر ہے۔‘‘ {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ} میں تنزیہہ ہے یعنی ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی تشبیہ سے پاک ہے لیکن خلف نے ان صفات کا حقیقی معنی نہ لے کرکے دوسرا معنی بیان کیا ہے اور حقیقی معنی نہ لے کرکے دوسرا معنی بیان کیا ہے اور حقیقی معنی سے اعراض کرگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ سلف صالحین کے منہج سے کوسوں دور ہوگئے۔
[1] ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کا قول: ’’التشبیہ من مذہب المشبھۃ، والتعطیل من مذہب المؤولۃ‘‘ اس میں لفظ ’’تشبیہ‘‘ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو اس کے کسی مخلوق سے تشبیہ دینا یا اس کے صفات کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دینا جیسے یہ کہا جائے کہ اللہ کا ہاتھ بندہ کے ہاتھ کی طرح ہے یا اس کا قدم مخلوق کے قدم کی طرح ہے۔ اس کی نگاہ مخلوق کی نگاہ کی مانند ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ محض نام کے اتفاق سے تشبیہ نہیں لازم آتی ہے مثلاً اللہ کا بھی ہاتھ (ید) ہے اور بندے کا بھی ہاتھ ہے دونوں کے ہاتھ (ید) کو ہاتھ ہی کہا جائے گا۔ اس کو صفات میں اتفاق کہتے ہیں یعنی دونوں ایک ہی معنی میں متفق ہیں اس کو تشبیہ نہیں کہا جائے گا جب تک یہ نہ کہا جائے کہ اللہ کا ہاتھ مخلوق کے ہاتھ کی طرح ہے یہ تشبیہ ہے اور یہی غلط اور باطل ہے اسی سلسلے میں ابن مندہ کہتے ہیں: ’’التمثیل والنشیہ لا یکون إلا بالتحقیق، ولا یکون بإتفاق الأسمائ‘‘ یعنی محض ناموں کے متفق ہونے سے تشبیہ و تمثیل ثابت نہیں ہوتی ہے جب تک کسی سے تشبیہ نہ دی جائے۔‘‘(بواسطۃ:الحجۃ فی بیان المحجۃ‘‘لأبی القاسم لأصبہانی 1/93)۔ رہا ’’تعطیل‘‘ تو اس کا مفہوم ’’نفی‘‘ ہے اور اگر اس کا قائل تاویل کرتا ہے یعنی لفظ کے ظاہری معنی سے اعراض کرکے دوسرا بعید معنی مراد لیتا ہے تو اس کا درجہ نفی سے کم ہے اور یہ تاویل بھی تعطیل ہی کا حصہ ہے۔ جیسے اشاعرہ اور معتزلہ جہمیہ کا ایک جزو اور حصہ ہیں کیونکہ اگرچہ نفی صفات میں ان کے درجات مختلف ہیں پھر بھی ان کا شمار انہی لوگوں میں ہوتا ہے جو صفات کی نفی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مشبہ نے اثباتِ صفات میں اتنا مبالغہ کیا کہ ظاہری معنی سے نکل کر تشبیہ مذموم و ممنوع کی طرف چلے گئے۔ لیکن سلف صالحین نے وسط (بیچ) کا راستہ اختیار کیا انہوں نے تو معطلہ کی طرح صفات کی نفی کی اور نہ ہی مشبہ کی طرح صفات کی مخلوق سے تشبیہ دی۔ بلکہ انہوں نے صفات کو اسی طرح ثابت کیا جس طرح کتاب و سنت میں وارد ہے اور صفات کی کیفیات کو اللہ کے حوالہ کردیا۔