کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 107
/ہیں تو انہوں نے جواب دیا: ’’أدرکنا اسماعیل من أبی خالد، وسفیان، ومسعرًا، یحدثون بھذہ الأحادیث، ولا یفسرون شیئًا‘‘ (اس روایت کو دوری نے ’’تاریخ ابن معین‘‘ (2543) میں، دار قطنی نے ’’الصفات‘‘ (58) میں اور بیہقی نے ’’الأساء والصفات‘‘ (75۹) میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔) ہم نے اسمٰعیل بن ابوخالد سفیان اور مسعر جیسے لوگوں کو دیکھا کہ وہ لوگ ان احادیث کو بیان تو کرتے تھے لیکن اس کی کچھ بھی تفسیر نہیں کرتے تھے۔‘‘ ٭ ابوعبید نے کہا: ’’ما ادرکنا أحدًا یفسر ہذہ الأحادیث، ونحن لا تفسرھا‘‘ (اس کو دار قطنی نے ’’الصفات‘‘ (57) میں، بیہقی نے ’’الأسماء والصفات‘‘ (760) میں، اللالکائی نے (928) میں اور آجری نے ’’الشریعۃ‘‘ (ص:255) میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔) ہم نے کسی کو ان احادیث کی تفسیر کرتے نہیں پایا لہٰذا ہم بھی ان کی تفسیر نہیں کریں گے۔ ٭ ربیعہ بن ابوعبد الرحمن نے کہا: ((الإستواء غیر مجہول، والکیف غیر معقول، ومن اللّٰہ الرسالۃ، ومن الرسول البلاغ، وعلینا التصدیق۔)) (اس کو ذہبی نے ’’العلو‘‘ (352) میں صحیح سند سے روایت کیا ہے۔) یعنی استواء کا معنی معلوم ہے اور کیف مجہول ہے، اللہ کی جانب سے پیغام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی تبلیغ ہے اور ہمارے اوپر اس کی تصدیق واجب ہے۔‘‘ آپ نے دیکھا کہ اس باب میں سلف صالحین اور ائمہ کرام کے اقوال ایک جیسے ہیں نہ تو کسی نے تاویل کی ہے اور نہ تشبیہ بیان کی ہے بلکہ یہ جیسے ثابت ہیں اسی طرح ان پر ایمان رکھا اور انہیں کے نقش قدم پر ان کے بعد کے ائمہ و محققین چلے ہیں۔ ٭ خلال نے کہا: ہم کو مروزی نے خبر دی کہ انہوں نے امام احمد بن حنبل سے احادیث صفات کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ: ’’نمرہا کما جائت‘‘ (اسی طرح موفق نے ’’ذم التأویل‘‘ (ص26) میں خلال کی طرف منسوب کیا ہے اس کی سند صحیح ہے اور یہ خلال کی ’’السنۃ‘‘(283) میں بھی روایت ہے) یعنی ہم ان احادیث سے ایسے ہی گزر جاتے ہیں جیسے وہ آئی ہیں یعنی ثابت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ نہ تو ان کی تاویل کریں گے نہ تشبیہ دیں گے اور نہ ہی ان کو چھوڑیں گے۔ ٭ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ابوبکر حمیدی رحمہ اللہ نے کہا: ’’أصول السنۃ عندنا…فذکر أشیائ، ثم قال:ہمارے نزدیک اصول سنت یہ ہیں اس کے بعد بہت سی چیزوں کو ذکر کیا اس کے بعد فرمایا: ’’وما نطق بہ القرآن والحدیث، مثل ’’وقالت الیہود ید اللّٰه مغلولۃ غلت ایدیہم‘‘ ومثل ’’السموت مطویات بیمینہ‘‘ وما أشبہ ہذا من القرآن والحدیث، لا نزید فیہ ولا تفسرہ، ونقف علی ما وقف علیہ القرآن والسنۃ، ونقول: ’’ ’ الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ /