کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 106
ہوں یا احادیث صفات، ان کے حقیقی معانی پر مکمل ایمان رکھتے تھے نہ تو ان کی تاویل کرتے تھے اور نہ ہی ان کو کسی سے تشبیہ دیتے تھے اور نہ ہی اس کو چھوڑتے ہی تھے بلکہ جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اسی طرح ان پر وہ ایمان رکھتے تھے۔[1] یہی عقیدہ ائمہ اربعہ کا بھی ہے۔
[1] ۔! مذہب سلف بیان کرنے میں ائمہ کرام کی عبارتیں مختلف ہیں:
٭ مثلاً امام اوزاعی نے کہا: امام زہری اور مکحول کہتے تھے: ’’یہ حدیثیں جیسی آئی ہیں ویسے ہی کہو‘‘ عبارت اس طرح ہے: ’’أمروا ہذہ الأحادیث کما جائت‘‘ (اللالکائی: (735) جامع بیان العلم لابیہ عبد البر (2/96) ذم التأویل للموفق المقدسی (ص:22) بسند صحیح۔
٭ سفیان بن عیینہ نے کہا:((کل ما وصف اللّٰه تعالی بہ نفسہ فی القرآن فقرأتہ تفسیرہ ولایقف، ولا مثل۔)) (امام دار قطنی نے ’’الصفات‘‘ ص61 میں صحیح سند سے اس کو روایت کیا ہے۔) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے آپ کو جن صفات سے متصف کیا ہے تووہی قرات ہی اس کی تفسیر ہے نہ تو اس کی کیفیت بیان کی جائے گی اور نہ اس کی تشبیہ دی جائے گی۔‘‘
٭ احمد بن نصر سے روایت ہے کہ انہوں نے سفیان بن عیینہ سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا: عبد اللہ کی حدیث ((إن اللّٰہ یجعل السماء علی اصبع)) ’’بے شک اللہ تعالیٰ آسمان کو انگلیوں پر کرلے گا۔‘‘ اور ((إن اللّٰہ یضحک ممن یذکرہ فی الأسواق۔)) ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کو بازاروں میں یاد کرتا ہے اس سے وہ ہنستا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ ((ینزل إلی السماء الدنیا کل لیلۃ)) ’’ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے‘‘ اس طرح دوسری احادیث بھی ہیں۔ ان کے جواب میں سفیان بن عیینہ نے کہا: ((ہذہ الأحادیث نرویہا، ونقربہ کما جائت بلا کیف۔)) (ابوبکر خلال نے ’’السنۃ‘‘ میں (313) دارقطنی نے ’’الصفات‘‘ (67) میں اور آجری نے ’’الشریعۃ‘‘ (ص314) میں اس کو صحیح سند سے روایت کیا ہے۔) ہم ان حدیثوں کو روایت کرتے ہیں اور جیسے یہ ثابت ہیں اس کو اسی طرح بلاکیف کے اقرار بھی کرتے ہیں۔
٭ ولید بن مسلم نے کہا: میں نے مالک بن انس، سفیان ثوری، لیث بن سعد اور اوزاعی سے صفات کے بارے میں وارد احادیث کے متعلق سوال کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’’أمروھا کما جائت‘‘ (ابوبکر خلال نے ’’السنۃ‘‘ میں (313) دار قطنی نے ’’الصفات‘‘ (67) میں اور آجر نے ’’الشریعۃ‘‘ (ص314) میں اس کو صحیح سند سے روایت کیا ہے۔) وہ جیسی وارد ہوئی ہیں ویسی ہی ان کو بتاؤ‘‘ یعنی ان کی تاویل وغیرہ مت کرو۔
٭ ابن معین نے کہا: میں زکریا بن عدی کے پاس حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ وہ وکیع بن جراح سے سوال کررہے تھے کہ اے ابوسفیان! ’’الکرسی موضع القدمین‘‘ جیسی احادیث کے بارے میں آپ کیا فرماتے /