کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 102
نہیں ہے اور یہ نظریہ محض اسی باطل عقیدہ سے پیدا ہوا ہے کہ جب تک صحیح حدیث متواتر نہ ہو اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا اسی لیے ان لوگوں نے بہت سی احادیث کا یہ کہہ کر انکار کردیا ہے کہ یہ تواتر کے مقام کو نہیں پہنچی ہیں۔
مثال کے طور پر آپ لوگ امام بخاری کی اس روایت کو جانتے ہوں گے جس کو انہوںـ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا۔ آپ نے فرمایا:
((اما إنہما لیعذبا ن وما یعذ بان فی کبیر…الحدیث۔))
’’بے شک ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے حالانکہ انھیں کسی بڑے معاملے کے بارے میں عذاب نہیں ہورہا ہے (ان کا گناہ یہ تھا) ان میں سے ایک چغل خوری کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔‘‘
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کھجور کے درخت کی ایک ڈالی لائی جائے۔ جب ڈالی لائی گئی تو آپ نے اس کو دو حصہ کردیا اور ہر ایک کے سر کے پاس ایک حصہ کو گاڑ دیا۔ لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا: ((لعل اللّٰہ عزوجل یخفف عنہما مادا مارطبین۔)) [1] جب یہ دو نوں تازہ اور ہری رہیں اس وقت تک ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میں تخفیف پیدا کردے۔‘‘ یہ حدیث صحیح بخاری میں موجود ہے۔
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ یہ دونوں مسلمان ہیں۔ اس کے باوجود دونوں کو عذاب ہورہا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے حق میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں سے عذاب کو کم کردے جب تک یہ دونوں شاخیں ہری رہیں
[1] ۔ صحیح بخاری : 1/289، ابوداؤد (21)، نسائی:4/106، منصور بن معتمر عن مجاہد عن ابن عباس کی سند سے اور اصحاب ستہ نے اس کو اعمش عن مجاہد عن طاردوس عن ابن عباس کی طریق سے روایت کیا ہے اور میرے خیال میں دونوں روایتیں محفوظ ہیں پس مجاہد حافظ اور امام کبیر ہیں لہٰذا ممکن ہے کہ پہلے انہوں نے حدیث کو طاؤس کے واسطہ سے سنا ہو۔ پھر بعد میں ابن عباس سے سنا ہو۔ بلکہ امام بخاری کا دونوں روایتوں کو روایت کرنا اسی روایت پر دلالت کرتا ہے اور اسکی تاکید بھی کرتا ہے ۔