کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 101
اس حدیث میں ان چار چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم ہے۔ نیز اس میں شرعی حکم بھی ہے چونکہ وہ لوگ اس مسئلہ میں ہمارے ساتھ ہیں کہ حدیث آحاد سے شرعی احکام بھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں اس حدیث کو لینے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں اور اس میں چار چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ عذاب قبر سے، فتنۂ موت و حیات سے اور فتنۂ مسیح دجال سے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عذابِ قبر پر ان کا اعتقاد و یقین ہے اگر ان کا اعتقاد ہے تو یہ اعتقاد اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور یہ حدیث حدیث آحاد کی قبیل سے ہے تو اب کیا کہیں گے؟
یہاں وہ لوگ ٹامک ٹوئیاں کھانے لگے اور زبردست دلدل میں پھنس گئے اس لیے کہ عذاب قبر عقیدہ ہے اور ان کے اعتقاد و یقین میں عذاب قبر متواتر حدیث سے بھی نہیں ثابت ہے۔ اسی لیے یہ لوگ عذاب قبر پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ہاں جس کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں فرعون کے حق میں وارد ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {النَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا} (المؤمن:46)
ان کے بقول آیت میں مذکور یہ آگ فرعون اور آل فرعون کا عذاب ہے لیکن عام کفار کو عذاب قبر یا وہ مسلمان جن کے حق میں کچھ بھی عذاب قبر ثابت ہے۔ ان پر ان کا ایمان [1]
[1] عن یحییٰ بن ابی کثیر، عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن، عن ابی ہریرۃرضي الله عنه، روایت کی ہے۔
لاریب یہ حدیث ان متاخرین کے خلاف ایک قوی حجت ہے اس کے مانند اور دوسری صحیح احادیث ہیں جو احکام و عقائد دونوں کو شامل ہیں اور ان کا شمار اخبار آحاد میں ہوتا ہے۔ ان متاخرین کا خیال ہے کہ ان احادیث میں عقائد کے علاوہ دوسرے احکام ہیں لہٰذا ان پر عمل کرنا ضروری ہے وہ یہ نہیں تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں عقیدہ بھی ہے یا عقیدہ کے مسائل بھی اس سے مستنبط ہوتے ہیں اور یہی تصور و خیال عین گمراہی ہے۔ کیونکہ نص کی صحت جب ثابت ہوجائے تو اس کی نہ تو مخالفت جائز ہے اور نہ ہی یہ کہہ کر اس میں توقف جائز ہے کہ یہ اخبار آحاد کی قبیل سے ہے۔ خواہ اس حدیث میں عقائد کے احکام ہوں یا دوسرے احکام و مسائل اور محققین اہل علم کے نزدیک اس تفریق کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ متقدمین علماء کرام اور ائمہ عظام نے احادیث آحاد سے عقائد اور صفات باری تعالیٰ کے باب میں استدلال کیا ہے اور اسی کو اہل بدعت اور اہل ہویٰ و نفس نے یا تو انکار کردیا ہے یا اس کی غلط تاویل کر ڈالی ہے اور دونوں باطل ہیں۔