کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 100
متاخرین کے خلاف ایک حجت: گزشتہ اوراق میں آپ نے پڑھا کہ متاخرین لوگ حدیث آحاد اور حدیث متواتر میں فرق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عقیدہ کے مسائل کے لیے حدیث متواتر ہونا ضروری ہے۔ حدیث آحاد سے عقیدہ نہیں ثابت ہوسکتا۔ یہ نظریہ قائم کرکے وہ خود بسااوقات عجیب و غریب تناقض میں واقع ہوجاتے ہیں اور اس سے نکلنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے اور یہ صرف اس لیے ہوتا ہے یہ لوگ سلفی منہج سے انحراف کئے ہوتے ہیں۔ آپ جب شرعی نصوص کو دیکھیں گے تو بعض نصوص آپ کو ایسے ملیں گے جن سے بیک وقت عقیدہ و احکام دونوں ثابت ہوتے ہیں جیسے صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إذا جلس أحدکم فی التشہد الآخیر، فلیستعذ باللّٰه من أربع……۔))[1] ’’جب تم میں کوئی تشہد اخیر میں بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کے ذریعے چار چیزوں سے پناہ مانگے، وہ کہے: اے اللہ میں تیرے ذریعہ جہنم کی عذاب سے، قبر کی عذاب سے، موت و حیات کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
[1] دقت نظر پر دلالت کرتی ہے کیونکہ آپ خود سوچیں کہ سلف صالحین کے فہم کی طرف رجوع ہوئے بغیر نیز ان کے عمل کو حجت بنائے بغیر شرعی نصوص کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے اور اگر میں یہ کہوں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ معاصرین میں شیخ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں ے اس منہج اور طریقہ کا احیاء کیا جس کے ذریعہ کتاب و سنت کے نصوص کو سمجھا جاسکتا ہے نیز یہ بھی واضح کیا کہ ان نصوص سے استدلال کے لیے سلف صالحین کے عمل کا جاننا بھی ضروری ہے، جبکہ بہت سے متاخرین فقہاء بالخصوص وہ لوگ جو اشعریہ اور اہل کلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ وہ سب سلفی منہج سے انحراف کئے ہوئے ہیں جبکہ سلفی منہج ہر قسم کی لغزشات و اخطاء سے پاک و صاف ہے۔ اس کی مثال اس سے پہلے زیارت قبور کے مسئلہ میں گزر چکی ہے۔  ۔صحیحین میں یہ حدیث عائشہ صدیقہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے (1/268) میں، امام مسلم (1/412) میں، ابوداؤد (880)، نسائی نے (8/262) میں: شعیب بن ابی حمزہ، عن الزہری، عن عروۃ بن الزبیر، عن اُمّ المومنین عائشہ رضی اللّٰه عنھا کی طریق سے روایت کیا ہے… اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے (1/423) میں، امام مسلم نے (1/413)میں: ہشام الاسناوئی، /