کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 98
’’ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا کہ میں کھانا کھانے اور دسترخوان اٹھالیے جانے کے بعد یہ کلمات کہوں : ((الحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيرًا)) سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ((الحَمْدُ لِلّٰهِ حمدًا كثيرًا)) اور ایسے ہی ’’غَیْرَ مَکْفِیِّ‘‘ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ اس کی نعمتوں کو رد کرنے والی نہ ہو۔اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کفایت سے ہو، بے شک اللہ تعالی اپنے بندوں کو روزی دیتا ہے، اور اس کو رد نہیں کرتا۔اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بندوں کی روزی کے لیے کفایت کرسکتا ہے۔ اور ابن التین رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں : کسی دوسرے کی طرف حاجت نہ رہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کو روزی عطا کرتا ہے، اور ان کے لیے کفایت کرجاتا ہے۔ امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ امام قزاز نے کہاہے : ’’وہ اپنے نفس کے لیے خود پورا ہونے میں کافی نہیں ہے۔ (اس لیے اللہ کی بارگاہ میں رجوع کررہا ہے۔) امام داؤدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ اس کا معنی یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نعمتوں سے کفایت نہیں کرسکتا۔ ‘‘ اور ابن التین رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ’’امام خطابی کا معنی زیادہ درست اور لفظ کے قریب تر ہے۔ یہ تمام بحث اس بات پر مبنی ہے کہ ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ ضمیر ’’حمد‘‘ کی طرف لوٹتی ہو۔ابراہیم الحربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ یہاں پر ضمیر کا مرجع طعام ہے۔‘‘ ابن جوزی نے ابو منصور جوالیقی سے بیان کیا ہے کہ : ’’ یہاں پر درست لفظ ’’مکافأ‘‘ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے استغناء نہیں برتا جاسکتا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ لفظ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی ثابت ہیں ۔ لیکن یہاں