کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 59
سے وہ اضطراب اور بے چینی کا شکار رہتا ہے۔ سبحان اللّٰہ ! دنیا اپنے نام کی طرح ردی اورگندی چیز ہے۔ اگر اس کا کوئی ایک پہلو مکمل ہوتا ہے تو دوسرے پہلو میں نقص آجاتاہے۔ ہمارے اس دور میں جو آسائشیں اور نعمتیں میسر ہیں ان کی مثال کسی بھی سابقہ دور میں نہیں ملتی۔ہر قسم کی نعمتیں وافر مقدار میں ہیں : مال و اولاد، ظاہری اور باطنی نعمتیں ۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس دور میں لوگو ں میں وسوسوں اور نفسیاتی امراض اور بلاؤوں کی بھی کثرت ہوگئی ہے۔تاکہ دنیا کسی پر بھی پوری نہ ہو، کہ لوگ اس کی طرف مائل ہو جائیں ۔ اس لیے کہ اگر کسی انسان پر ہر طرح سے دنیا کامل ہوجائے تو اسے آخرت بھول جائے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ اللہ کی قسم ! میں تمہارے بارے میں فقر و فاقہ سے نہیں ڈرتا۔ مگر میں اس چیز سے ڈرتا ہوں کہ یہ دنیا تم پر کھول دی جائے اور تم اس کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر ایسے سبقت لے جانے لگو جیسے تم سے پہلے لوگوں نے اس دنیا میں سبقت لی۔ اور یہ دنیا تمہیں ایسے ہلاک کردے جیسے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر چکی ہے۔‘‘ اللہ عزوجل نے اگر اس دنیا کو ایک جانب سے کھولا ہے تو دوسری طرف سے اس کے کئی مکدر پہلو بھی سامنے آئے ہیں ۔( جوکہ قابل ِ غور و فکر ہیں ) اس سورت کا حاصل کلام اور خلاصہ یہ ہے کہ اس سورت میں وسوسوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔ یہ وسوسے کبھی انسان کے لیے دین کے بنیادی امور میں بھی پیدا ہوتے ہیں ، اور کبھی اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کے بارے میں ، اور کبھی قرآن کے بارے میں تو کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں ۔ اور کبھی انسان کے دل میں ایسے وسوسے بھی آتے ہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ اس منہ میں کوئلے پڑ جائیں مگر وہ ان کے بارے میں بات نہ کرے۔ ایسے ہی کچھ وسوسے طہارت کے بارے میں بھی ہوتے ہیں ۔ انسان کو ایسا وسوسہ لاحق ہوتا ہے کہ کو ئی انسان طہارت حاصل (وضوء)کرنے کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتا