کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 54
جنت میں داخل ہوگا۔ ’’یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ‘‘ …’’جنت میں داخل ہوگا‘‘ اس سے مراد یاتو یہ ہوسکتی ہے کہ ان پر ایمان رکھتے ہوئے مرنے والا سابقین کے ساتھ جنت میں داخل ہوگا۔ یا بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا فضل ہے اور اس کے ساتھ ہی حسن ِ خاتمہ کی بشارت بھی۔ علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ اگر یہ کہا جائے کہ مومن اگر یہ کلمات نہ بھی کہے تو وہ اہل جنت میں سے ہے ؟(توپھر اس کا جواب کیا ہے؟) تو میں کہوں گا: ’’ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ انسان ابتدائی طور پر ہی جہنم میں جائے بغیرہی جنت میں داخل ہوجائے گا۔ اس لیے کہ غالب طور پر ان(کلمات) کی حقیقت پر یقین رکھنے والا، اور ان کے مضمون پرایمان رکھنے والا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتااور اللہ تعالیٰ اس استغفار کے کلمات کی برکت سے اس کو معاف کر دے گا۔‘‘ اگرآپ یہ کہیں کہ ان الفاظ کے سید الاستغفار ہونے میں کیا حکمت ہے ؟ تو میں کہوں گا کہ یہ کلمات اور ان جیسے دوسرے کلمات تعبدی (عبادت کے) امور میں سے ہیں ۔اور اس کی حکمت کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ مگر اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس اللہ تعالیٰ کا ذکر زیادہ کامل اوصاف میں ہے۔ اورانسان کا اپنی ذات کا تذکرہ انتہائی ناقص صفات و حالات میں ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کے سامنے تضرع و عاجزی و انکساری کی انتہاء ہے۔ پہلی حالت میں اللہ تعالیٰ خالق و مالک کی توحید کا اعتراف و اقرار ہے۔اور ایسے ہی اس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی نعمتوں کے مقابلے میں اپنی عبودیت اور گناہوں کا اعتراف ہے جو کہ (حقیقت میں )شکر کا الٹ ہے۔ ابن ابی جمرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ استغفار کی شرطوں میں سے ایک نیت کا صحیح ہونااور توجہ اور ادب بھی ہے۔ اگر کوئی ایک یہ تمام شرطیں پوری کرتا ہو، مگر وہ ان الفاظ کے علاوہ کسی اور الفاظ میں استغفار کرے، یا پھر استغفار تو ان ہی الفاظ میں کرے مگر شروط پوری نہ کرتا ہو تو کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سید الاستغفار بے شک اسی وقت صحیح طور پر کہا جاسکتا ہے جب