کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 262
﴿ فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ﴿٨٣﴾ وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُونَ ﴿٨٤﴾ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴿٨٥﴾ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ ﴿٨٦﴾ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ ’’پھر اگر تم سچے ہو تو جب (بیمار کی ) جان (بدن سے نکل کر) حلق میں آن پہنچی ہے اور تم اس وقت (ٹکر ٹکر پڑے) دیکھتے رہتے ہو۔اورہم تم سے زیادہ اس (بیمار ) کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے۔پھر اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو۔تواس (بیمار )کی جان (گلے سے) پلٹا کیوں نہیں لیتے اگر تم سچے ہو۔‘‘ کون ہے جو اس وقت روح کوواپس لا سکے جب وہ حلق تک پہنچ گئی ہو؟ ہر گز ہر گز کوئی بھی ایسا نہیں ۔انسان اس وقت زندگی سے مایوس ہوتا ہے جب وہ اپنی موت کو سامنے دیکھ لیتاہے۔اس وقت انسان کو کیا کہنا چاہیے ؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے : ((اللَّهمَّ اغفِرْ لي وارحَمْني وألحِقْني بالرَّفيقِ الأعلى)) ’’اے اللہ !میری مغفرت فرما؛ اور مجھ پر رحم فرما، اور مجھے رفیق اعلی کے ساتھ کردے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے دعا فرمایا کرتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرمادیے تھے۔ رفیق اعلی کون ہیں ؟ رفیق اعلیٰ انبیائے کرام علیہم السلام صدیقین،شہداء اور صالحین ہیں ؛ اور یہی بہترین ساتھی ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت کے وقت ایسے دعا کی تھی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن میں پانی تھا۔ آپ پرسکرات کی ایسی سخت گھڑیاں آئیں تھیں کہ کسی اور پر نہیں آئیں ۔ آپ کی بیماری بھی دو آدمیوں کی بیماری کے برابر ہوتی تھی۔ آپ کی بیماری کی طرح آپ کا عالم نزع بھی بہت سخت تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر کے اعلی درجات کو