کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 240
جو امور ہوچکے ہیں یا ہونے والے ہیں ۔ اور جو نہیں ہوئے، اگر ہوتے تو کیسے ہوتے۔ دوسرا طریقہ:… اہل علم واصحاب الرائے نیک و صالحین سے مشورہ کیا جائے۔ مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے مشاورت پر کتاب اللہ کی دوآیتوں سے استدلال کیا ہے جن میں نبی سے خطاب ہے۔ فرمایا: ﴿ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ﴾ (آل عمران: ۱۵۹) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ درست اور صائب رائے والے انسان تھے۔ لیکن پھر بھی آپ بعض مشکل امور میں اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مشورہ کیا کرتے تھے۔اور اسی طرح آپ کے بعد خلفاء راشدین اہل رائے اور نیک و کار لوگوں سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ جس سے مشورہ کیا جارہا ہو اس میں دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے : ٭ عقل مند اورمختلف امور میں تجربہ کار ہو۔ دور اندیش ہو جلد باز نہ ہو۔ اوریہ کہ دینی لحاظ سے نیک و کار ہو۔ اس لیے کہ جو انسان دینی لحاظ سے نیک و کار نہ ہو وہ (مشورہ دینے میں ) امانت دار نہیں ہوسکتا، خواہ وہ کتنا ہی ذہین اورعاقل کیوں نہ ہو۔اورمختلف امور میں بڑا تجربہ رکھتا ہو۔ جب انسان کا دین درست نہیں تو اس میں کوئی خیر نہیں ۔اوروہ اس لائق نہیں کہ اس سے مشورہ طلب کیا جائے۔ اس لیے کہ جب انسان دین دار نہ ہو تو اس سے یہ امکان ہوتا ہے کہ مشورہ دینے میں خیانت کرجائے؛ اورایسا مشورہ دے جس میں ضرر اور نقصان ہو؛ یا ایسا مشورہ دے جس میں کوئی خیر نہ ہو، بلکہ فساد ہی فساد ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ﴾ (الشوری :۳۸) ’’اور ان کا کام آپس کی صلاح اورمشورے سے چلتاہے۔‘‘