کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 228
مقصود اللہ تعالیٰ کی ہماری ہے ؛کہ وہ ذات اس کی نگہبانی کرے، اور اس کی حفاظت کرے۔ اس لیے کہ اکثر و بیشتر انسان سفر میں ایسی صحبت اختیار کرنا چاہتا ہے جس سے وہ مانوس ہو۔ تاکہ اس کے ساتھ اپنے خیالات کا تبادلہ کرسکے۔ اور وہ ساتھی سفر میں پیش آنے والی مشکلات سے نمٹنے کے لیے اس کا ساتھ دے سکے۔ اس قول میں بہترین اعتماد کی طرف تنبیہ کی گئی ہے۔ اپنے ساتھی کی طرف سے کمالِ کفایت کی طرف اشارہ ہے۔ خلیفہ اسے کہتے ہیں : جو امور کو نبھانے میں نیابت کرے۔اس کا معنی یہ ہے کہ : اے اللہ ! تو ہی ہے جس سے میں امید کرتا ہوں ۔ اور اپنے اہل خانہ سے غائب ہونے کی حالت میں تجھ پر ہی اعتماد کرتا ہوں کہ تو ان کی پراگندگی کو سدھائے، ان کے بیماروں کو شفادے، اور ان کے دین و امانت کی حفاظت فرمائے۔ مِن وَعْثاءِ السَّفَرِ: … سفر کی مشقت اور تھکاوٹ۔ وعث ایسی جگہ کو کہتے ہیں جو بہت نرم (دلدلی ) ہو؛ اور وہاں پر چلنے میں دشواری پیش آتی ہو۔ وَكَآبَةِ المَنْظَرِ: …برا منظر ؛ جسے دیکھ کر غم و حزن ٹوٹ پڑے۔ اس سے مراد ہر ایسے منظر سے پناہ مانگنا ہے جس سے غم و پریشانی ملتی ہو۔ وَسُوءِ المُنْقَلَبِ: … یعنی ایسی جگہ پلٹنا جو کہ برا لگے۔ یعنی سفر سے اس حالت میں پلٹے کہ اسے یا اس کے اہل خانہ کو کوئی ایسا امر لاحق ہوا ہو جوکہ ان کے حق میں براہو۔ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس تشریف لاتے تو یہی کلمات دوبارہ کہتے اور ان کے ساتھ یہ الفاظ زیادہ کرتے: (آئِبُوْنَ):خیریت و سلامتی کے ساتھ واپس آنے والے۔ تائِبونَ: …گناہوں سے توبہ کرنے والے۔ عابِدونَ:… عبادت کرنے والے، مخلص۔ یعنی اپنے رب کے لیے مخلص اور اس کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا بیان کرنے والے۔ فوائدِ حدیث: ٭ ہر قسم کا سفر شروع کرنے کے لیے اس دعا کا مستحب ہونا۔