کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 225
وَالتَّکْبِیْر:… یعنی ا للّٰه أکبر کہنا۔ هوِّن عليهِ السَّفرَ: …یعنی امور سفر، اور اس کی مشقتیں آسان کردے۔ شرح :…(اس حدیث میں ہے ) تقوی کو اس کی تمام اقسام کے ساتھ ہمیشہ کے لیے لازم پکڑنا چاہیے۔ بے شک یہی وہ وصیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو کی ہے؛ ارشاد فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’ اور ہم نے ان لوگوں کو جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (یعنی یہود اور نصاریٰ کو) اور خود تم کو بھی یہ وصیت کی تھی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔‘‘ اس حدیث میں اونچائی پر چڑھتے ہوئے اللّٰهُ أكبَرُ کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی مناسبت یہ ہے کہ انسان کے نفس میں اونچائی محبوب و مرغوب ہوتی ہے۔ پس جس کسی کا ایسی حالت سے واسطہ پڑے تو اس کے حق میں مشروع یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اورعظمت کوپیش نظر رکھتے ہوئے اس کی بڑائی وبزرگی بیان کرے، اور اللّٰهُ أكبَرُ (اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے)کہے۔ یہ تکبیر بندہ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کا شکر ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید نعمتیں ملیں گی۔ ’’جب وہ آدمی واپس جانے کے لیے پلٹا…‘‘تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ کے پیچھے اس کے لیے دعا کی۔ اس لیے کہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ دعا یہ تھی: اللَّهمَّ اطوِ لهُ البعدَ:… اے اللہ ! اس کی دوریوں کو سمیٹ دے۔ علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی مسافت کو قریب کردے، اور اسکے سفر کو آسان کردے تاکہ اس پر سفر طویل نہ ہو۔ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس کا معنی یہ ہے کہ اے اللہ ! سفر کی مسافت کو حسی یا معنوی طور پر قریب کرکے اس انسان سے سفر کی مشقت ختم کردے۔