کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 204
ہیں ، اگرچہ ان کے پجاریوں نے ان کو بھی معبود کا نام دے رکھا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ معبود نہیں ، بلکہ یہ ویسے ہی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ﴿مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ﴾ (یوسف :۴۰) ’’تم لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو پوجتے ہو وہ نرے نام ہیں (جن کی حقیقت کچھ نہیں ) جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو ان کے پوجنے کی کوئی سند نہیں اتاری۔‘‘ پس سچا معبود توصرف ایک اللہ تعالیٰ ہے۔اگلے جملہ میں اس کی تاکید آرہی ہے : وحدَه لا شريكَ له:…یہ جملہ پہلے جملہ کی تاکید ہے کہ وحدانیت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، اس کے ساتھ مبعود برحق ہونے میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ۔ له الملكُ وله الحمدُ وهو على كلِّ شيءٍ قديرٌ:… اسی کے لیے مطلق و عام بادشاہی ہے، جوکہ ہر ایک چیز کو شامل ہے۔ وہ آسمانوں اور زمینوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، اس سب کا بادشاہ ہے۔ وہ انسانوں ؛ حیوانوں ، شجرو حجر، بحر وبر، سمندر و نہر ؛ ملائکہ ؛ شمس و قمر اور دیگر ہر ایک چیز کا مطلق بادشاہ ہے خواہ ہم اس چیز کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ۔ ملکیت اسی کی ہے وہ جیسے چاہے اس میں تصرف کرے، اور اپنی حکمت کے مطابق اس میں فیصلے کرے۔ وله الحمدُ:… اسی کے لیے تعریف ہے۔ یعنی ہر حال میں کمال مطلق اسے ہی حاصل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر حال میں قابل تعریف اورلائق صد ستائش ہے، تنگی اور وسعت میں ، دکھ اور خوشی میں ۔پس انسان خوشی اور وسعت کی حالت میں اپنے رب کی ایسی تعریف بیان کرتا ہے جس میں اس کا شکر بھی ہے۔ جب کہ تنگی اور پریشانی کے عالم میں جب اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہے تو ایسی حمد ہوتی ہے جس میں اپنے معاملات کواللہ تعالیٰ کے سپرد