کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 201
میں تیرے بابرکت ناموں میں سے اس عزت والے نام کے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں عرض گزاری کرتا ہوں کہ تومیری نماز کو سلامت رکھ تاکہ یہ میرے گناہوں کی مغفرت اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جائے۔ یہ کلمات اس وقت کہے جاتے ہیں جب انسان نماز سے فارغ ہوجائے جیسا کہ امام نووی نے بھی ارشاد فرمایاہے۔ [حدیث کے الفاظ ]’’ تین بار استغفار کرتے۔‘‘صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں کہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ استغفار کیسے (کن الفاظ میں ) کیا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا، آپ فرماتے تھے: ((أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ)) یہ بھی کہا گیا ہے کہ کم ترین مقدار یہ ہے کہ انسان صرف ’’اَسْتَغْفِرُاللّٰہ‘‘کہے۔ اور اکمل یہ ہے کہ اس کے ساتھ ’’ العظیم ‘‘کا اضافہ کردے اور یوں کہے: ((أستغفرُ اللّٰهَ العظيمَ الَّذي لا إلهَ إلّا هوَ الحيُّ القيُّومُ وأتوبُ إليهِ)) استغفار اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا حق پورا ادا نہیں کرسکتا۔ اس کے تدارک کے لیے استغفار مشروع کیا گیا ہے۔ علامہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کو کم سمجھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے استغفار کیا۔ عبادت کرنے والے کو چاہیے کہ اس کا بھی یہی حال ہوکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا خیال رکھے۔اور اپنے نفس اورعمل کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حقیر جانے۔ اس طرح جب بھی انسان زیادہ عمل کریگا اس کے تضرع [گریہ وزاری] اور استغفار میں بھی زیادتی ہوگی۔(اس عمل پر) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تعریف کی ہے ؛فرمایا: ﴿ كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ﴿١٧﴾ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ (الذاریات: ۱۷،۱۸)