کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 183
فرما دے۔ ‘‘ شرح:…ایک رات ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیدار ہوئیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا، آپ انہیں تلاش کرنے لگیں ۔ اور آپ(اندھیرے کی وجہ سے)اپنے ہاتھوں سے انہیں ٹٹولنے لگیں ؛ توآپ کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے تلوے پر جا پڑا ؛ آپ حالت سجدہ میں تھے۔ یہاں ممکن ہے کہ مسجد سے مراد گھر کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ ہو۔اس لیے کہ آپ اکثر اوقات (نفل نماز) اپنے گھر پر پڑھا کرتے تھے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد مسجد نبوی ہو۔ جیسا کہ ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے۔ سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں ہے:’’ میں نے مسجد میں آپ کو تلاش کیا، تودیکھا کہ آپ حالت سجدہ میں تھے۔‘‘ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سے گھر کے اندر کی مسجد یعنی مصلیٰ مراد ہے۔ (راوی کا قول کہ) اس حال میں کہ آپ کے قدم کھڑے تھے۔یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ حالت سجدہ میں انسان کے قدم کھڑے ہونے چاہیں ۔ اللَّهُمَّ أعُوذُ برِضاكَ مِن سَخَطِكَ…’’تیرے غصہ سے تیری خوشی کی پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘ یعنی تیری رضا کا وسیلہ اختیار کرتا ہوں کہ تو ناراض نہ ہو؛اورغصہ نہ کرے۔ اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے فعل سے پناہ مانگتاہوں جس سے مجھ پر یا امت پر تیری ناراضگی یا غضب ہو۔ وبِمُعافاتِكَ : … ’’ اورتیری معافی کی پناہ چاہتا ہوں تیری سزا سے۔‘‘ اس لیے کہ سزا تیری ناراضگی کے اثرات میں سے ایک ہے۔یہاں پر آثار رحمت کی پناہ اس لیے طلب کی گئی ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔ وأَعُوذُ بكَ مِنْكَ …’’اورمیں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘ یعنی میں تیری صفات کے آثار سے تیری ذات کے جلال کی پناہ مانگتاہوں ۔ اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ میں تیری صفات جلال سے تیری صفات جمال کی پناہ مانگتا