کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 159
میں تیری اطاعت پر قائم ہوں ، یا تیری بارگاہ میں حاضر ہوں ، یا تیری دعوت کوقبول کرتا ہوں ؛ ان معانی کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ؛ بلکہ ہر ایک معنی حق ہے۔ اس لیے کہ یہ انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر باقاعدگی کے ساتھ قائم رہنے والا،اس کی دعوت کوقبول کرنے والا، اوراس کی بارگاہ میں حاضر ہونے والا ہے۔ اسی لیے حج کے تلبیہ میں کہا جاتا ہے کہ :’’ جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بیت اللہ کے حج کی دعوت دی ؛ اور پھر جس کو حج کے لیے آنے کی توفیق دی تو اس کے لیے مشروع یہ ہے کہ وہ اعمال حج میں داخل ہونے کے بعد یوں کہے: ((لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ))یعنی بے شک تونے مجھے اپنے گھر کے حج کے لیے بلایا، اور مجھے یہاں آنے اور اس گھر تک پہنچنے کی توفیق دی؛ اور میں نے یہ عبادت شروع کردی ہے تو میں کہتا ہوں ((لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ))’’تونے مجھے بلایا، تو میں حاضر ہوں ‘‘اور میں کہتا ہوں : ((لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ)) اور لفظ ’’وَسَعْدَیْکَ‘‘کا معنی ہے: تیری طرف سے سعادتمندی کے بعد پھر سعادت مندی ہے۔ یا تیری طرف سے مدد کے بعد پھر مدد ہے۔ اور یہ قول (( وَالْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ یَدَیْکَ)) ہر قسم کی خیر تیرے ہاتھ میں ہے۔ اس کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جان لو کہ اگر پوری امت اس بات پر متفق ہو جائے کہ تمہیں کسی چیز میں فائدہ پہنچائیں تو بھی وہ صرف اتنا ہی فائدہ پہنچا سکیں گے جتنا اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر تمہیں نقصان پہنچانے پر اتفاق کر لیں تو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہ جو اللہ تعالی نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔‘‘ پس تمام خیر اللہ کے ہاتھ میں ہے،جس کو وہ نوازنا چاہے اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا اور جس کو وہ نہ دے اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ