کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 155
آپ ہی وہ ہستی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے وحی اور ہدایت نازل فرمائی۔ اور آپ پر وہ نور نازل فرمایا جس سے راہ ِ حق کی طرف ہدایت مل سکتی ہے۔ اور لوگوں کا اندھیروں سے روشنیوں کی طرف نکلنا ممکن ہے۔ جب کہ غیر نبی کی نسبت سے اس کا یہ معنی ہوگاکہ : ’’ میں سب سے پہلے سر تسلیم و خم کرتا ہوں ؛ یا میں سب سے پہلے اس حکم کو ماننے کے لیے سبقت لے جاتا ہوں ۔ یہ معنی ہر گز نہیں کہ وہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہے۔ یا پہلے پہل دین میں داخل ہونے والے لوگوں میں سے ہے۔ اس لیے کہ دین میں رہنما اور قابل اتباع ہستی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہی ہے۔ اور سب سے پہلے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کی وہ مردوں میں جناب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عورتوں میں جنابہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا اور بچوں میں جناب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شامل ہیں ۔ لیکن مسلمان جب یہ کلمات کہتا ہے تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں یہ کلمات کہتا ہے۔ تواس لحاظ سے معنی بنتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اس حکم کو ماننے والوں میں سے ہے نہ کہ سب سے پہلے اسلام میں داخل ہونے والوں میں سے۔ مقصود ان احکام کو ماننے کے لیے جلدی کرنا،اور ان اوامر کو بجالینے میں ٹال مٹول سے گریز کرنا ہے۔بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسرا آدمی یہ کلمات کہے تو اسے چاہیے کہ وہ ((وَاَنَا أوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ))’’ اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ‘‘کے بجائے یوں کہے : ((وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ))’’ اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔‘‘ اس لیے کہ سب سے پہلا مسلمان ہونے کا قول صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آسکتا ہے۔ لیکن پہلا معنی کے لحاظ سے بھی یہ جملہ درست ہے جیسا کہ اس کی تاویل کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ اور بعض اہل علم نے اسے ذکر بھی کیا ہے یعنی پہلا مسلمان ہونے سے (غیر نبی سے ) مقصود احکام شریعت کو ماننے کی طرف سبقت لے جانا اور ٹال مٹول سے بچناہے۔ ((اللَّهُمَّ أنتَ المَلِكُ لا إلهَ إلّا أنتَ)) یعنی تو ہی دنیا اور آخرت کا بادشاہ ہے۔ جیسا کہ سورت فاتحہ میں ہے کہ وہ بدلے کے دن کا بادشاہ ہے۔ فرمایا: