کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 153
ان کاموں سے معمور ہوجن سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوتی ہے۔اور ایسے ہی انسان کی موت بھی صرف اور صرف ایک اللہ تعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے۔اس لیے کہ وہی کائنات کا مدبر و متصرف ہے۔اور وہی زندگی اورموت دینے والا ہے۔ اور وہی اس دنیا کی زندگی میں نیک اعمال کی توفیق دینے والا ہے تاکہ آخرت میں اس پر اجر و ثواب سے نوازے۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی ہی عمل کی جگہ ہے۔ اور موت اس عمل پر جزاء ملنے کے لیے ٹھکانہ ہے۔ اگر اچھے اعمال کیے ہوں گے تو اچھا بدلہ ملے گا،اور اگر برے اعمال ہوں گے تو برا بدلہ ملے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿٨﴾ (الزلزال:۷،۸) ’’پھر جوکوئی ذرہ برابر (دنیامیں )نیکی کرے گا وہ(آخرت میں )اس کو(اپنے نامہ اعمال میں دیکھ لے گا۔اورجو کوئی ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘ حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ((يا عِبادِي إنَّما هي أَعْمالُكُمْ أُحْصِيها لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إيّاها، فمَن وَجَدَ خَيْرًا، فَلْيَحْمَدِ اللّٰهَ وَمَن وَجَدَ غيرَ ذلكَ، فلا يَلُومَنَّ إلّا نَفْسَهُ.)) [1] ’’اے میرے بندو !یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں تمہارے لیے اکٹھا کر رہا ہوں پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا تو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔‘‘ حدیث کے الفاظ((للّٰهِ ربِّ العالمينَ لا شريكَ لهُ))یہی اصل میں ’’ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ‘‘ کا معنی ہے۔اسے کلمہ اخلاص اور کلمہ توحید بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی میری عبادت صرف
[1] مسلم: ۶۷۳۷