کتاب: صحیح دعائیں اور اذکار - صفحہ 115
اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہوں ۔‘‘ جب انسان یہ کلمات کہہ لیتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے : ’’ تمہیں ہدایت دی گئی، اور تمہیں شر سے بچا لیا گیا‘‘ اور شیطان کو اس انسان سے دور کردیا جاتا ہے۔ مسلمان کا وہ دن کتنا ہی اچھا گزرے گا جس میں شیطان کا کوئی حصہ نہ ہو۔ اور وہ راہ ہدایت پر دن گزارے، اور اس کے تمام کام کفایت کردیے گئے ہوں ، اور اسے ہر قسم کے شراور دشمن سے بچا لیا گیا ہو۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کی پناہ میں آتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتے ہیں ، اس کی رہنمائی کرتے ہیں ، اور اس کے دینی و دنیاوی کاموں میں اس کی مدد کرتے ہیں ۔ اور جب انسان اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنے تمام کام اللہ کے سپرد کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کارساز کافی ہو جاتا ہے۔ علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ اس کلام میں بہترین جمع و ترتیب ہے۔ وہ اس طرح سے کہ ‘‘، اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کے تبرک سے اسے ہدایت دی گئی۔ اور توکل کی وجہ سے اس کے معاملات میں کفایت کردی گئی۔ اور لا حولَ ولا قوَّةَ إلّا باللَّهِکہنے کی وجہ سے اسے ہر قسم کے شر سے بچا لیا گیا۔‘‘ یہ اس حدیث کی بہترین توجیہ ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کے مبارک نام سے مدد طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتے ہیں ، کامیاب کرتے ہیں ،رہنمائی فرماتے ہیں ، اور اس کے دینی اور دنیاوی امور میں اس کی مدد فرماتے ہیں ۔اور جب انسان اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمان ِ الٰہی ہے: ﴿ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾ (الطلاق:۳) ’’ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اس کو اللہ کافی ہو جاتا ہے۔‘‘ جو کوئی لا حولَ ولا قوَّةَ إلّا باللَّهِ کہے،اللہ تعالیٰ اسے شیطان کے شر سے بچالیتے ہیں ، اور شیطان کواس پر مسلط نہیں ہونے دیتے۔پس اس لیے شیطان اس سے دور ہوجاتا ہے۔ ایک حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ شیطان(اپنے آپ سے) کہتا ہے: ’’ اس